'مشہور شخصیات کی نقل اتارنے پر دھمکی نہیں، دھمکیاں ملیں'

'مشہور شخصیات کی نقل اتارنے پر دھمکی نہیں دھمکیاں ملی'

میمونہ رضا نقوی


سوشل میڈیا کے بڑھتے اس دور میں اگر انٹرنیٹ پر کوئی ایک بار وائرل ہوجائے تو لوگ اسے بھولتے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھ لیتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر 'چائے والے' کی مقبولیت کے بعد اگر کوئی نیا پاکستانی اس وقت مقبول ہورہا ہے، تو وہ ہے سید شفاعت علی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے شفاعت علی طویل عرصے سے میڈیا انڈسٹری میں موجود ہیں، لیکن ان کی اس سال انٹرنیٹ پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو نے انہیں مقبولیت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔

سیاست دانوں اور مشہور فنکاروں کی آواز کی نقل میں ویڈیوز بنانے والے شفاعت علی کا اداکاری اور گلوکاری میں کوئی جواب نہیں۔

اپنی عمر بتانے سے گریز کرنے والے شفاعت 9 فروری کو پشاور میں پیدا ہوئے، اور اب ان کی مزاحیہ ویڈیوز شائقین کی خوب داد وصول کررہی ہیں۔

موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈان نیوز نے شفاعت حسین کا انٹرویو کیا، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر، ویڈیوز، مستقبل کے منصوبوں اور ذاتی زندگی پر بات کی۔

ڈان: شفاعت آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ کیریئر کا آغاز کب کیا؟

سید شفاعت علی: میرا تعلق پشاور سے ہے، میں آج کل لاہور میں مقیم ہوں، میں نے کراچی میں بھی 5 سال کام کیا، لیکن یہ کام ایسا ہوتا تھا کہ میں 2 دن کراچی میں رہتا پھر پشاور آتا پھر واپس کراچی جاتا، اس دوران میری تعلیم کے ساتھ ساتھ میرا شو بی این این (بنانا نیوز نیٹ ورک) بھی جاری تھا۔

نومبر 2006 میں فور مین شو کا حصہ بنا تھا، وہیں سے میرا کیریئر شروع ہوا کیونکہ مجھے اپنے خرچے کے لیے پیسے چاہیئے ہوتے تھے، اس شو میں ایک حصہ ہوتا تھا وائس کالز کا، تو اس دوران میں کسی بھی مشہور شخصیات کی نقل کرکے لوگوں کو کالز کرتا تھا، اس دوران میں نے مشرف صاحب اور شوکت عزیز کی بھی نقل اتاری۔

اس شو سے قبل میں کسی کی نقل اتارنے والا شخص نہیں تھا، میں کافی شریف اور شرمیلا ہوا کرتا تھا، میں نے اس سے قبل کبھی بھی اس قسم کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔

ڈان: شفاعت علی آپ طویل عرصے سے مشہور شخصیات، سیاست دانوں وغیرہ کی نقل کرتے آرہے ہیں، کیا کبھی کسی کی جانب سے دھمکی موصول ملی؟ یا کسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

سید شفاعت علی: مجھے ایسا کرتے ہوئے دھمکی نہیں، دھمکیاں مل چکی ہیں، اور ایک نہیں بےشمار ملی ہیں، حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سعید غنی نے مجھے ٹویٹ کی، جس میں انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی ویڈیوز کے ذریعے بلاول بھٹو زردای یا پارٹی کے ارکان کی توہین نہ کروں، تو مجھے کافی افسوس ہوا کہ آج بھی لوگ کامیڈی کو نہیں سمجھتے، ہم انٹرٹینمنٹ کے لوگ ہیں، اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ سیاسی لوگ اس کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیتے ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ میری ویڈیوز سے خوش ہوتے ہیں اور اس کا لطف اٹھاتے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ جو پارٹیز خود کو سب سے زیادہ آزادی پسند مانتی ہیں، ان کی جانب سے مجھے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا آتا ہے۔

ڈان: آپ کو ملنے والی دھمکیوں کا اثر آپ کے خاندان یا بیوی پر ہوتا ہے؟ بیوی اس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟

سید شفاعت علی: میری بیوی اس دنیا کی سب سے مظلوم خاتون ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو سارا دن میری پریکٹس کی آوازیں سننا پڑتی ہیں، وہ خود پیشے سے ڈاکٹر ہیں، تو ہماری ٹائمنگز بھی میچ نہیں ہوتی، اس لیے برداشت بہت کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ جب بھی کوئی دھمکی جیسی بات آتی ہے تو میں اپنی بیوی سے یا فیملی سے شیئر نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہوں کہ قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا حل نکال لوں۔

ڈان: خود سب سے زیادہ کس کی نقل اتارنا پسند کرتے ہیں؟

سید شفاعت علی: جو لوگ سب سے زیادہ بُرا مانتے ہیں مجھے سب سے زیادہ ان کی نقل اتارنے میں مزہ آتا ہے۔

ڈان: آپ 2006 سے اس فیلڈ میں ہیں، لیکن مقبول اپنے حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو سے ہوئے، اس پر کیا کہیں گے؟

سید شفاعت علی: اس سے قبل بھی میری کئی ویڈیوز وائرل ہوئیں، لیکن یہ ویڈیو اس لیے زیادہ مقبول ہوئی، کیونکہ ہر دور میں سوشل میڈیا کا زمانہ میں کافی مختلف رہا ہے، یہ ایسا دور ہے جہاں لوگوں کے پاس ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں، لیکن موبائل اور انٹرنیٹ ہر شخص استعمال کر رہا ہے، لوگوں کو فیس بک اور ٹوئٹر دیکھ کر ساری خبریں مل جاتی ہیں، جب میری ویڈیو وائرل ہوئی تو مجھے کہیں نہ کہیں افسوس ہوا، یہ ویڈیو پاکستان کے تقریباً ہر پیج پر شیئر ہوچکی تھی، اور میں لوگوں کے کمنٹس دیکھ رہا تھا جس میں زیادہ تر نے یہ سوال کیا تھا کہ یہ کون ہے؟ اس پر لوگوں نے میرے جھوٹے تعارف لکھے تھے۔

جیسے کسی نے کہا کہ میں ان کے اسکول میں پڑھا ہوں جبکہ میں نے سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی، کسی نے کہا میں ان کی یونیورسٹی میں تھا جبکہ میں نے پشاور کی یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی، لوگوں نے تو بڑے عجیب ہی تعارف لکھ ڈالے تھے، لیکن بعد میں، میں نے اس حقیقت کو قبول کیا کہ اب ٹی وی سے زیادہ سوشل میڈیا کا دور چلتا ہے۔

ڈان: کیریئر میں آگے کیا کرنا ہے؟ صرف نقل ہی کرتے رہیں گے یا فلموں وغیرہ میں کام کرنا چاہیں گے؟

سید شفاعت علی: میں چینل ٹوئنٹی فور پر ایک مکمل شو کی میزبانی کرتا رہا ہوں، جس کا نام تھا 'میرے عزیز ہم وطنوں'، یہ پروگرام ایک چھوٹے پلیٹ فارم پر کیا گیا، لیکن تھا بہت ہی مزاحیہ، میں اپنے کیریئر میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کو آگے لے کر جانا چاہتا ہوں، پاکستان میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کو ایک مقام دلوانا چاہتا ہوں، پاکستان سے سعد ہارون کے علاوہ اب تک کوئی بڑا اسٹینڈ اپ کامیڈین نہیں آیا۔

سچ بات یہ ہے کہ میں خود چاہتا ہوں کہ میں کسی معیاری فلم میں کام کروں، ایک ایسی فلم جو معاشرے اور مارکیٹ پر اپنا اثر چھوڑے، جیسے 'نامعلوم افراد'، 'ایکٹر ان لا' یا پھر 'جوانی پھر نہیں آنی'، میں ایسی کسی فلم کی آفر کا انتظار کر رہا ہوں، اس کے علاوہ میں ایک فلم کی کہانی خود لکھ بھی رہا ہوں، کیونکہ میں اپنے گزشتہ شوز بی این این، فور مین شو اور میرے عزیز ہم وطنوں کا مصنف رہ چکا ہوں، میں کامیڈی کرنے کے ساتھ ساتھ لکھتا بھی آرہا ہوں۔

ڈان: پاکستان میں جو اور کامیڈین سامنے آرہے ہیں، آپ انہیں اپنا مقابِل سمجھتے ہیں؟

سید شفاعت علی: میرے خیال میں میری کامیڈی کرنے کا انداز باقیوں سے مختلف ہے، کیونکہ میں نقل کرتا ہوں، میری توجہ میری آواز پر ہے، نقل کرنے والے فنون اور بھی ہیں، لیکن اسٹنڈ اپ کامیڈی میں نقل کرنے کو پیش کرنا کافی منفرد اور مزاحیہ ہوگا، ویسے تو سب ہی کافی اچھا کام کر رہے ہیں، اور میں سب کا احترام کرتا ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میری کامیڈی کے انداز میں مقابلہ کم ہے۔

ڈان: آپ دوسروں کی نقل کرتے ہیں، لوگ اسے پسند کررہے ہیں، آپ کو خود کسی اور کی نقل کرنے کا انداز پسند ہے؟

سید شفاعت علی: ایک امریکی آرٹس ہیں جمی فیلن جو کہ کامیڈی شوز کرتے آرہے ہیں، مجھے ان کی کامیڈی کافی پسند ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں میر محمد علی بہت اچھا کام کررہے ہیں۔

ڈان: پاکستان میں عموماً لوگ اپنا ٹیلنٹ دوسرے کو نہیں سکھاتے، تو کیا آپ کا ارادہ ہے کہ آپ لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کچھ سکھائیں؟

سید شفاعت علی: کچھ چیزیں خدا کا تحفہ ہوتی ہیں، بعد ازاں ہم اس ٹیلنٹ کا بہتر کرتے ہیں، پاکستان میں نوجوانوں میں ٹیلنٹ بے شمار ہے لیکن ہمت کم ہے، جنتی میری حیثیت ہے میں نے اس کے تحت ایک کام شروع کیا ہے، جو کہ 'کامیڈی فار اے کاز' (comedy for a cause) کے نام سے شروع کی ہوئی ایک مہم ہے، اس میں، میں مختلف اسکولز اور کالجز کے طلبہ کے سماجی مسائل پر کامیڈی سیشنز منعقد کرتا ہوں، ظاہر ہے کامیڈی سے پریشانی حل نہیں ہوسکتی، لیکن کم از کم ہم کسی سنجیدہ مسائل پر کامیڈی میں بات کرسکتے ہیں۔