قصور: ناکردہ جرم کے باجود اپنی زندگی کا نصف سے زائد حصہ سلاخوں کے پیچھے گزارنے والے 45 سالہ مظہر فاروق نے پولیس میں کرپشن، بے ڈھنگے قانونی عمل اور جیل انتظامیہ کی سفاکی کو اپنے مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

مظہر فاروق 1992 میں اس وقت ایف سی کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم تھے جب وہ قصور سے تقریباً 10 کلو میٹر دور کیسر گڑھ گاؤں میں اپنے گھر گئے اور جہاں زندگی نے ان کے اور ان کے اہلخانہ کے لیے ڈراؤنا موڑ لیا۔

مظہر فاروق، ان کے بھائیوں اور انکل کو مخالفین کی جانب سے قتل کے جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا۔

ڈان کو اپنی روداد سناتے ہوئے مظہر فاروق نے کہا کہ ’مجھے مقامی ٹرائل کورٹ نے 1998 میں سزائے موت سنائی، جسے 2008 میں لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا، جس کے بعد مجھے سپریم کورٹ سے رہائی پانے کے لیے مزید 8 سال لگے۔‘

مطہر فاروق کو سپریم کورٹ نے چند ہفتے قبل ناکافی ثبوت کی بنا پر 24 سال جیل میں سزا کاٹنے کے بعد بےقصور قرار دیتے ہوئے رہا کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: قتل کا ملزم 24 سال بعد ناکافی ثبوت پر بری

انہوں نے کہا کہ ان سالوں کے دوران ان کے اہلخانہ نے ان کی رہائی کے لیے اپنی تمام جمع پونجی لُٹادی، یہاں تک کہ غریب کے لیے اس متعصبانہ سسٹم میں انصاف پانے کے لیے ان کے گھر والوں کو اپنی چند زمینیں بھی بیچنی پڑی، جبکہ بقیہ زمین پر چند بااثر افراد نے قبضہ کرلیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس وقت نوجوان تھا جب مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور جب آزاد ہو کر باہر آیا ہوں تو میں اپنی عمر سے دو گنا بڑا لگتا ہوں۔‘

مظہر فاروق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جو عرصہ میں نے جیل میں گزارا اس دوران تمام چیزیں بدل چکی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی سزائے موت کا حکم برقرار رکھے جانے کے فیصلے کے بعد سے ان کا چھوٹا بھائی ذہنی مسائل کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: 19 سال بعد بَری ہونے والا ملزم 2 سال قبل فوت

کرپٹ پولیس اور غیر موثر عدالتی نظام نے مظہر فاروق کو ناکام کردیا، جس کے بعد جیل انتظامیہ نے بھی ان کے مصائب میں اضافہ کیا۔

مظہر کا کہنا تھا کہ ’موبائل فون ہو، منشیات ہو یا کچھ اور، جیل کے اندر ہر وہ چیز دستیاب تھی جس کے لیے آپ جیل انتظامیہ کو رشوت دے سکیں، ورنہ جیل میں آپ کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔‘

تاہم قصور، لاہور، ملتان اور شیخوپورہ سمیت مختلف جیلوں میں سزا کاٹنے اور تمام مصائب و مشکلات جھیلنے کے باوجود مظہر فاروق نے اپنی گریجوایشن مکمل کی، کئی کورسز کیے حتیٰ کہ پولیٹیکل سائنس میں اپنا ماسٹرز بھی مکمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اب میرے پاس سوائے ان ڈگریوں کے اور کچھ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزارے ہیں، ریاست کو انہیں نوکری اور ان کی مالی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی باقی زندگی عزت و وقار کے ساتھ جی سکیں۔

مظہر فاروق نے کہا کہ پورے نظام میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، تاکہ کوئی دوسرا اس صورتحال سے بچ سکے جن سے انہیں گزرنا پڑا۔


یہ خبر 8 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (3) بند ہیں

RIZ Dec 08, 2016 09:25am
will people (judges, lawyers, police and his enemies) ever be punished??? this is not a loss of a single individual but loss of a whole family.. poor have nothing in this system,
rabia jamil Dec 08, 2016 12:06pm
بالکل صیح مطالبہ کیا ہے مظہر فاروق نے،ریاست ان کی نوکری دلانے کےلئے بندو بست کرے۔
Neelofer aman Dec 08, 2016 06:23pm
Who is responsible for his loss? Who ll pay him back? Totally darkness in the heart...