خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بنائے گئے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے سینئر رکن سلمان صوفی نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے خواتین پر تشدد کے مسئلے کو آج تک کسی حکومت نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے پوئےسلمان صوفی نے کہا کہ خواتین پر تشدد کے مسئلے کو ہمیشہ سول سوسائٹی یا این جی اوز کے دائرے میں دیکھا گیا، اس وجہ سے آج تک اس مسئلے پر صحیح سے کام نہیں ہو سکا۔

انھوں نےمزید کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ نے اس مسئلے پر کام شروع کیااور تحفظ خواتین بل برائے 2015 کا مسودہ تیار ہوا، جس کے نتیجے میں کیس پہلے کی نسبت زیادہ سامنے آرہے ہیں۔

مزید پڑھیں:پنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بل منظور

سلمان صوفی نے مزید کہا کہ اس طرح کے بل پہلے بھی آتے رہے ہیں، لیکن ان کا نفاذ کم نظر آتا ہے، حکومت پنجاب نے اس بل میں خواتین پر تشدد کے خلاف وائیلنس اگینسٹ وومن سینٹر کے نام سے ایک طریقہ کار وضح کیا ہے ۔

سلمان صوفی کے مطابق پاکستان خطے کا پہلا ملک ہے جہاں انصاف کی فراہمی کا بہترین نظام متعارف ہو رہا ہے، جس کے تحت ملتان سے ایک آدھ ماہ میں کام شروع کر دیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس نظام کے تحت ہم انصاف فراہم کرنے والے تمام اداروں کو ایک چھت کے نیچے لے آئے ہیں۔

اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے رکن کے مطابق متاثرہ خواتین کو پولیس، استغاثہ ، فرانزک ، میڈی کو لیگل اور چھت فراہم کرنے جیسی سہولیات دی جا رہی ہیں جبکہ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ استغاثہ ، ڈاکٹر اور پولیس میں خواتین شامل ہوں گی ۔

یہ بھی پڑھیں:مظفر آباد: نو عمر لڑکی کے ساتھ 'جنسی زیادتی'

سلمان صوفی نےکہا کہ قانون میں یہ بات لکھی گئی ہےکہ حکومت تمام 36 اضلاع میں سینٹر بنانے کی پابند ہے جبکہ ملتان میں بنایا جانے والا پہلا سینٹر تمام سینٹرز کا ہیڈکوارٹر ہو گا ۔

انھوں نے کہاکہ جنوبی پنجاب میں خواتین پر تشدد کے سب سے زیادہ کیس سامنے آنے کی وجہ سے ملتان کا انتخاب کیا گیا ۔

سلمان صوفی کے مطابق اس بل میں وومن پروٹیکشن افسران متعارف کروائی گئی ہیں جن کا تعلق سول سوسائٹی سے ہو گا لیکن انھیں تشدد کا شکار ہونےوالی خاتون کی مدد کا قانونی اختیار ہو گا۔

مزید پڑھیں:'ریپ' کی شکار خاتون نے خودکشی کرلی

واضح رہے کہ پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد میں گذشتہ سال کے مقابلے رواں سال اضافہ ہوا ہے اور اب تک اس کے 324 واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

رواں سال فروری میں پنجاب اسمبلی نے تحفظ خواتین بل برائے 2015متفقہ طور پر منظور کیا تھا ۔

جس کے تحت گھریلو تشدد معاشی استحصال ،جذباتی و نفسیاتی تشدد ، بد کلامی اور سائبر کرائم قابل گرفت قرار دیئے گئے تھے۔

جب کہ چند روز قبل مظفر آباد میں 3 افراد نے ایک نو عمر لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی تصاویر کھینچیں، لڑکی نے دعویٰ کیا کہ جائیداد کے تنازع پر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

اس سے قبل پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں مبینہ زیادتی کا شکار خاتون نے انصاف نہ ملنے پر تھانہ سٹی کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی جو بعد ازاں اسپتال میں دم توڑ گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں