ایٹمی دھماکا جھیلنے والا 391 سالہ درخت

24 دسمبر 2016
1976 میں یہ درخت امریکا کو تحفے میں دے دیا گیا تھا— فوٹو بشکریہ بورڈ پانڈا
1976 میں یہ درخت امریکا کو تحفے میں دے دیا گیا تھا— فوٹو بشکریہ بورڈ پانڈا

اگر آپ نے کبھی کوئی پودا لگایا ہو اور اسے تناور درخت میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ اپنے لگائے ہوئے پودے کو بڑھتا ہوا دیکھ کر کس قدر خوشی محسوس ہوتی ہے۔

لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پودا تو لگاتے ہیں لیکن وہ چند دنوں بعد مرجھانے لگتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ دنیا میں ایک درخت ایسا بھی ہے جو ایٹمی دھماکے کو بھی جھیل چکا ہے اور اب بھی زندہ ہے جبکہ اس کی عمر 391 برس ہوچکی ہے۔

یہ درخت جاپان کے یاماکی خاندان کی ملکیت تھا— فوٹو بشکریہ بورڈ پانڈا
یہ درخت جاپان کے یاماکی خاندان کی ملکیت تھا— فوٹو بشکریہ بورڈ پانڈا

بورڈ پانڈا کی رپورٹ کے مطابق یہ درخت ہیروشیما میں 1625 میں لگایا گیا تھا اور یہ اس مقام سے صرف 2 میل کے فاصلے پر موجود تھا جہاں ایٹم بم گرایا گیا۔

یہ درخت جاپان کے یاماکی خاندان کی ملکیت تھا، ایٹمی حملے میں یاماکی خاندان اور یہ درخت کرشماتی طور پر زندہ بچ جانے میں کامیاب رہا تھا۔

امریکا کی جانب سے کیے جانے والے اس حملے میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سفید صنوبر کی نسل کا یہ بونسائی درخت (بونا درخت) اس وقت امریکی ریاست واشنگٹن کے نیشنل شجر گاہ میں دیگر بونسائی درختوں کے ساتھ موجود ہے اور اب بھی ہرا بھرا ہے۔

بونسائی ماسٹر ماسارو یاماکی نے 1976 میں یہ درخت امریکا کو تحفے میں دے دیا تھا اور شجر گاہ کے عملے کو اس درخت کی تاریخی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔

تاہم 2001 میں یاماکی کے پوتوں نے اس شجر گاہ کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے اس درخت کی حیران کن کہانی عملے کو سنائی تھی۔

واضح رہے کہ بونسائی پودوں کی آرائش کا ایک جاپانی طریقہ کار ہے جس میں خاص قسم کے پودوں کی اس طرح کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ بونے درجت بہت خوبصورت لگتے ہیں اور جاپان کی ثقافت میں بونسائی کی خاص اہمیت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں