افغانستان میں داعش کے خلاف مظاہرہ

03 جنوری 2017
— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

ہرات: مغربی افغانستان میں ہزاروں افراد نے دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کی جانب سے بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ حملوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔

افغان حکومت کی طرف سے خبردار کیا گیا تھا کہ داعش نے ملک کے 11 صوبوں میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے ’افغانستان کے دشمنوں کی موت‘ اور ’داعش کی موت‘ کے نعرے لگائے گئے۔

افغانستان کے شہر ہرات میں مظاہرین نے ہاتھوں میں حالیہ فرقہ وارانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر اٹھائے گورنر کے آفس کی جانب مارچ کیا۔

مظاہرین میں شامل ایک شخص قربان علی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’داعش کے ہماری مساجد پر حملے روز بروز بڑھ رہے ہیں اور وہ مختلف فرقوں کے درمیان دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہماری حفاظت کرے۔‘

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: داعش کا حملہ،5 پولیس اہلکار ہلاک

افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے۔

چند ماہ قبل تک داعش پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع مشرقی افغان صوبے ننگرہار تک محدود تھی جہاں اس نے سر قمل کیے جانے سمیت ظلم کی نئی داستانیں رقم کیں۔

لیکن رواں ہفتے حکومت نے کہا کہ دہشت گرد گروپ کی دیگر صوبوں میں بھی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔

افغان وزارت داخلہ میں انسداد دہشت گردی شعبے کے سربراہ نجیب اللہ مانی کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہماری ابتدائی معلومات کے مطابق ہرات میں حالیہ حملوں کے پیچھے داعش ملوث ہے، وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور اپنے کنٹرول کو نئے علاقوں تک بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’داعش اب ملک کے 34 صوبوں میں سے کم از کم 11 میں موجود ہے اور ان کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا ہے۔‘

ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ہرات میں حالیہ دنوں میں اقلیتی گروپ کی مساجد پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اتوار کو ہی ایک حملے میں امام مسجد ہلاک اور 5 افراد زخمی ہوئے، تاہم داعش نے باضابطہ طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

مظاہرے میں شامل ایک اور شخص 30 سالہ جواد نے کہا کہ ’ہم داعش کو افغانستان کو دوسرا شام بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، جبکہ حکومت کو اقلیتوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیے۔

افغانستان میں مسلمانوں کے اقلیتی گروپ پر داعش کے حملوں میں گزشتہ سال تیزی آئی تھی۔

اکتوبر 2016 میں جنوبی شہر مزارِ شریف کی مسجد میں ہونے والے زور دار دھماکے میں 14 افراد ہلاک ہوئے۔

یہ حملہ کابل کے مزار میں مسلح حملہ آوروں کی فائرنگ کے چند گھنٹوں بعد پیش آیا، جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

جولائی 2016 میں کابل میں داعش کے خودکش حملے میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور 130 زخمی ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں