سابق آرمی چیف کے نئے عہدے پر گرما گرم بحث

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2017
جنرل راحیل شریف نومبر 2016 میں پاک فوج ست ریٹائر ہوئے — فوٹو: اے ایف پی
جنرل راحیل شریف نومبر 2016 میں پاک فوج ست ریٹائر ہوئے — فوٹو: اے ایف پی

کراچی: پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے پر مختلف حلقوں میں بحث شروع ہوگئی جبکہ اس فیصلے پر ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

نجی ٹی وی جیو کے پروگرام میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بلواسطہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جنرل (ر) راحیل شریف دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کریں گے۔

وزیر دفاع کے بیان کے بعد وفاقی حکومت، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور خود جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے اس بیان کی تصدیق یا تردید سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

معاملہ سامنے آنے کے بعد سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر راحیل شریف ٹرینڈ بن گیا جبکہ اس معاملے پر 9 ہزار 500 سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ مقرر

ٹوئٹر پر سیاستدان، فوج کے ریٹائرڈ افسر، صحافی، ٹی وی میزبان اور دانشو راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے محض 2 ماہ بعد کیے گئے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں، تاہم ٹوئٹر پر موجود زیادہ تر سیاستدانوں کے تصدیق شدہ اکاؤنٹس نے اس معاملے پر بحث سے پرہیز کی۔

ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے چند سیاستدانوں میں سے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر بھی ایک تھے، جنہوں نے اس اقدام کو بدقسمتی قراردیا، اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ جنرل راحیل شریف اس فوجی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں، جس میں پارلیمنٹ نے شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

مجلس وحدت مسلمین(ایم ڈبلیو ایم) کی جانب سے اس فیصلے پر اپنی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا گیا، جس میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس قدم کو پاکستانی مفادات کے خلاف قرار دیا اور کہاکہ سابق آرمی چیف اس تقرری سے انکار کریں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت کے ترجمان نے کہا کہ راحیل شریف کا دہشت گردی کے خلاف 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بننا پاکستان کے لیے اعزاز ہے۔

وفاق میں برسر اقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کےرہنما لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ 39 ممالک کے فوجی گروپ کی سربراہی کرنا ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے، تاہم انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ فوجی اتحاد کسی ایک ملک یا گروپ کے خلاف ہے۔

واہ کینٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے فوجی اتحاد میں شمولیت کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھیں: 'دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 34 اسلامی ریاستیں متحد‘

ٹی وی میزبان عاصمہ شیرازی نے ٹوئٹ میں سوال اٹھایا کہ راحیل شریف کو سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے فوجی اتحاد کی سربراہی کے بدلے کیا پیشکش کی گئی؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس معاملے کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے، وزیر دفاع نے جان بوجھ کر اس معاملے پر بات کی ہے،

کالم نگار ڈاکٹر محمد تقی نے ٹوئٹ کیا کہ ایک خیال تو یہ ہے کہ خواجہ آصف نے اس معاملے پر بحث کرنے میں جلد بازی کی، تاکہ راحیل صلاح الدین شریف ایوبی عوامی بحث تلے آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان عرب فوج اتحاد میں اپنی شمولیت سے بے خبر

ان تمام ٹوئٹس اور بحث کے برعکس عام صارفین کی بڑی تعداد نے جنرل کے فیصلے اور ان کی جانب سے ملک میں کامیاب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تعریف کی۔

کرکٹر احمد شہزاد نے ٹوئٹ کی کہ انہیں فخر ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

سیکڑوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر راحیل شریف کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک فوجی ہمیشہ فوجی رہتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ڈیوٹی پر ہے یا نہیں‘۔

سوشل میڈیا پر یہ بھی لکھا گیا کہ راحیل شریف ٹوئٹ پڑھیں۔


یہ خبر 8 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

amjad iqbal Jan 08, 2017 11:19am
pata nai General Bajwa Raheel shareef ban jai ga ya nai, but i believe my Army Pak army, Salute you Raheel Shareef
Israr MuhammadkhanYousafzai Jan 09, 2017 02:51am
جنرل صاحب فوج سے ریٹائرڈ ھوچکے ھیں لیکن کسی بھی سرکار افسر پر یہ لازم ھے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کم از کم دو سال تک کوئی دوسری ذمہ داری نہیں لے سکتا یہ آئینی قانونی بات ھے اسلئے ھم سمجھتے ھیں کہ جنرل صاحب نے اپنے ملک کے ضابطے کا لحاظ نہیں رکھا یہ بات بھی یاد رکھنی کی ھے کہ اس قسم کے فوجی اتحاد میں پاکستان نے شرکت سے انکار کردیا ھے جو ملک یہ فوجی اتحاد بنا رہا ھے انہوں نے واضح نہیں کیا کہ کس مقصد کیلئے ایسا فوجی اتحاد بنایا جارہا ھے اسلئے ھم سمجھتے ھیں کہ جنرل صاحب نے بہت عجلت سے فیصلہ کیا ھے جس کو بحرحال پسندیدہ فیصلہ نہیں کہا جاسکتا ملک کے مقبول ترین فوجی سربراہ کو ملازمت کیلئے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا