اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی سے متعلق سامنے آنے والی اطلاعات سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

سینیٹ میں اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ میڈیا سے ہی یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف نے اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کی کمان سنبھال لی ہے، اب تک ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی اور نہ ہی سابق آرمی چیف کی جانب سے این او سی کے حصول کے لیے کوئی درخواست دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دہشت گردی کے خلاف 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا سربراہ بنانے کی تصدیق کی تھی۔

نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے اعتراف کیا تھا کہ اس حوالے سے معاہدے کو چند روز قبل حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ مقرر

نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ فیصلہ موجودہ حکومت کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا اور اسے پہلے پاکستان میں حتمی شکل دی گئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’راحیل شریف کی تقرری کا معاملہ گزشتہ کچھ عرصے سے زیر غور تھا اور وزیر اعظم نواز شریف بھی اس حوالے سے مشاورت میں شامل تھے۔‘

تاہم سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیردفاع نے آرمی چیف کی مسلم فوجی اتحاد میں بطور سربراہ تعیناتی کی تمام خبروں سے یکسر لاتعلقی کا اظہار کردیا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومت سے استفسار کیا تھا کہ بتایا جائے کہ سابق آرمی کی مسلم فوجی اتحاد کی سربراہی کی خبروں میں کتنی صداقت ہے اور اس پر حکومت کی کیا پوزیشن ہے۔

اس پر خواجہ آصف نے حکومت کی جانب سے سینیٹ میں جواب پیش کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایسی خبریں تو سامنے آئی ہیں لیکن کوئی بات واضح نہیں۔

مزید پڑھیں: اسلامی فوج کی سربراہی: 'جنرل راحیل نے اب تک اجازت نہیں لی'

خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کا سابق آرمی افسران کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے آرمی اور وزارت دفاع سے این او سی لینا پڑتا ہے اور اب تک سابق آرمی چیف کی جانب سے وزارت دفاع کو این او سی جاری کرنے کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

چیئرمین سینیٹ کے اس سوال پر کہ آیا سابق آرمی افسر کے بیرون ملک کام کرنے سے متعلق کوئی قوانین موجود ہیں، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تمام سابق افسران کو آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سول محکموں میں کام کے لیے وزارت سے این او سی لینا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی قوانین نہیں جس پر چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قوانین وضع کیے جانا ضروری ہیں۔

خواجہ آصف نے سینیٹ کو مزید بتایا کہ ’راحیل شریف سعودی عرب عمرہ ادا کرنے گئے تھے اور دو روز قبل وہ وطن واپس آچکے ہیں‘۔

چیرمین سینیٹ نے خواجہ آصف سے استفسار کیا کہ کیا راحیل شریف اتحادی فوج کی سربراہی سے متعلق پاک فوج کو آگاہ کرچکے ہیں، جس پر وزیر دفاع نے بتایا کہ ’اب تک ان کی جانب سے پاک فوج کو بھی مطلع نہیں کیا گیا‘۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینیٹ کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ اب تک سعودی عرب کی جانب سے عہدے کی کوئی باقاعدہ پیشکش نہیں کی گئی۔

تاہم سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کی جانب سے اتحادی فوج کی سربراہی کا کوئی بھی فیصلہ گذشتہ سال پاس کی جانے والی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کی خلاف ورزی ہوگی جس میں اس بات کی تجویز دی گئی تھی کہ پاکستان کسی بیرونی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔

واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی سے متعلق خبروں پر تبصرہ کرنا نا مناسب ہے، کیونکہ ابھی تک انھوں نے اس عہدے کے لیے فوج یا حکومت سے اجازت طلب نہیں کی۔

مصدق ملک کا کہنا تھا کہ جو چیز ابھی تک ہوئی ہی نہیں اس بارے میں پہلے سے سوالات اٹھانا اور حکومتی لاعلمی کا تاثر پیش کرنا درست نہیں ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی واضح کیا تھا کہ اگر سابق آرمی چیف راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی پیشکش ہوئی تو وہ یقیناً حکومت سے اس کی اجازت لیں گے۔

حال ہی میں نجی چینل ’سماء نیوز‘ کے پروگرام ’ندیم ملک لائیو‘ میں بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے انکشاف کیا تھا کہ ’سعودی عرب کی خواہش تھی کہ آرمی چیف رہتے ہوئے راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بنیں، لیکن حکومت اور فوج کا خیال تھا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں اور اس سے مفادات میں تضاد پیدا ہوگا۔‘

واضح رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنائے جانے کے بعد پاکستان ابتداء میں اس میں شمولیت سے متعلق مخمصے کا شکار رہا۔

تاہم ابہام دور ہونے کے بعد پاکستان نے اس اتحاد میں اپنی شمولیت کی تصدیق کردی، لیکن کہا گیا کہ اتحاد میں اس کے کردار کا تعین سعودی حکومت کی طرف سے تفصیلات ملنے کے بعد کیا جائے گا۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں