کراچی: بحری جہازوں میں آگ لگنے کے یکے بعد دیگرے واقعات سامنے آنے کی وجہ سے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ایک بار پھر کم سے کم 15 دن کے لیے کام بند کردیا گیا۔

واضح رہے کہ پیر کے روز ایک ایل پی جی ٹینکر میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 5 مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کام بند کرنے کا فیصلہ لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر نے مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 144 کے تحت کیا تاکہ یہاں مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو بچایا جاسکے۔

اس سلسلے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: گڈانی میں کھڑے جہاز میں آتشزدگی،5 جاں بحق

واضح رہے کہ اس طرح کی پابندی یکم نومبر کو گڈانی میں پیش آنے والے آتشزدگی کے واقعے کے بعد بھی لگائی گئی تھی جس میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے تاہم بعد میں شپ بریکرز ایسوسی ایشن کی کوششوں کے بعد یہاں کام دوبارہ شروع کردیا گیا تھا تاکہ ان جہازوں پر کام کو تکمیل تک پہنچایا جاسکے جو یکم نومبر سے پہلے این او سی حاصل کرچکے ہیں۔

پیر کو آگ لگنے کا واقعہ بھی یارڈ نمبر 60 میں پیش آیا جو شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ کی ملکیت ہے۔

ورکرز کا کہنا ہے کہ یارڈ کے مالک دیوان رضوان کو یکم نومبر کے سانحے کے بعد بھی حراست میں لیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے رہا کردیا گیا تھا۔

مزدوروں کا کہنا ہےکہ 9 جنوری کو جب ایل پی جی ٹینکر میں آگ لگی تو مالک خود بھی وہاں موجود تھا اور پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تھا تاہم ورکرز کو یقین ہے کہ اسے دوبارہ چھوڑ دیا جائے گا۔

سہولتوں کی فراہمی تک یارڈ بند رکھنے کا مطالبہ

دوسری جانب ٹریڈ یونینز اور مزدور رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حفاظتی اقدامات اور سہولتوں کی فراہمی تک گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔

مزید پڑھیں: گڈانی: تیل بردار بحری جہاز میں دھماکا، 17 افراد ہلاک

کراچی پریس کلب میں اس حوالے سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں نیشنل لیبر کونسل کے سیکریٹری کرامت علی، سندھ لیبر سالیڈیٹری کمیٹی کے کنوینئر حبیب الدین جنیدی، سندھ لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری شفیق غوری وہ دیگر نے خطاب کیا۔

مقررین نے مطالبہ کیا کہ 'جب تک فائر بریگیڈ، ایمبولینس، ڈسپنسری اور دیگر سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں شپ بریکنگ یارڈ میں دوبارہ کام شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے'۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ 'اس مدت کے دوران حکومت یارڈ میں کام کرنے والے ملازمین کو معقول تنخواہیں بھی اداے کرے'۔

مقررین کا کہنا تھا کہ 'گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں پرانے جہازوں کو توڑنے کا کام کافی عرصے سے جاری ہے مگر یہ انڈسٹری کسی قانون یا ادارے کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان شپ بریکنگ ایسوسی ایشن کے مطابق ہر سال 60 سے 70 جہاز گڈانی کے اس واحد یارڈ میں توڑنے کے لیے لائے جاتے ہیں، گذشتہ سال 160 جہاز لائے گئے تھے۔

اس وقت گڈانی میں کل 130 پلاٹس موجود ہیں جن میں سے 68 پلاٹس آپریشنل ہیں جہاں 38 کمپنیز (آپریٹرز) کام کررہی ہیں جن کے پاس 12,000 کے قریب مزدور کام کرتے ہیں۔

مزدور رہنماؤں نے کہا کہ 'تواتر کے ساتھ آگ لگنے اور مزدوروں کی ہلاکت کے واقعات رونما ہو ہونے کے باوجود صوبائی و وفاقی حکومتوں کی جانب سے لازمی اور منا سب احتیاطی تدابیر اور مزدوروں کی صحت و سلامتی سے متعلق کوئی بھی اقدامات نہیں کیے گئے'۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے ساحل پر واقع گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ان حادثات کی روک تھام کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی جائے گی، جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔

مزدور رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ' صوبائی محکمہ محنت کے ذریعے گڈانی کے شپ یارڈ میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کو رجسٹرڈ کیا جائے اور لیبر انسپیکشن کا مناسب انتظام کیا جائے'۔

تبصرے (0) بند ہیں