گجرات: صوبہ پنجاب کے علاقے بھلوال کے ایک بنیادی صحت کے مرکز (بی ایچ یو) میں تعینات دو خواتین ہیلتھ ورکرز کو چار نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔

ملزمان جاتے ہوئے اپنے ہمراہ مرکز سے 8000 روپے اور دیگر قیمتی سامان بھی لے گئے تاہم یہ تصدیق نہیں ہو کسی ہے کہ آیا ملزمان مرکز میں ڈکیتی کیلئے آئے تھے۔

واقعہ گذشتہ سال 29 دسمبر کو ڈنڈا پولیس اسٹیشن کی حدود میں قائم صحت کے مرکز پر پیش آیا۔

گذشتہ ہفتے جمعہ کے دن متاثرہ خواتین کے اہل خانہ نے ضلعی پولیس افسر سہیل ظفر چٹھہ سے رابطہ کیا جس کے بعد یہ واقعہ منظر عام پر آیا۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحت کے مرکز پر تیسری خاتون ہیلتھ ورکر بھی تعینات تھی، تاہم اس پر کسی بھی قسم کے حملے کی تفصیلات تاحال معلوم نہیں ہوسکی ہیں لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ گینگ ریپ کے ملزمان نے اسے کچھ دیر کیلئے ایک کمرے میں بند کردیا تھا۔

گجرات کے ڈی پی او نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے 'گینگ ریپ' کے واقعے کی تصدیق کی اور بتایا ہے کہ پولیس نے ملزمان کی نشاندہی کرلی ہے اور انھیں جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں متاثرہ خواتین ہیلتھ ورکر صحت کے مرکز سے منسلک رہائشی کمرے میں رہائش پذیر ہیں اور انھوں نے اپنے سینئرز کو اس واقعے سے آگاہ کیا تھا لیکن تاحال کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ڈنڈا تھانہ کی پولیس نے واقعے کا ابتدائی مقدمہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 392 کے تحت چوری کے حوالے سے درج کیا تھا، جیسا کہ بتایا گیا تھا کہ ملزمان نے چوکیدار کو کمرے میں بند کیا اور جاتے ہوئے 8000 روپے اور قیمتی اشیاء ساتھ لے گئے، جن میں یو پی ایس اور بیڑی، بائیومیٹرک مشین اور ایک موبائل فون بھی شامل تھا۔

خواتین کے انکشاف کے بعد پولیس نے مقدمے میں پی پی سی کی دفعہ 376 ٹو کو بھی شامل کرلیا۔

اس سے قبل 12 جنوری کو ڈپٹی کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے متاثرہ مرکز کا دورہ کیا اور واقعے کی تفصیلات سنیں۔

انھوں نے مرکز میں کام کرنے والے اسٹاف کیلئے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کا اعلان کیا اور دیگر مراعات دینے کا وعدہ بھی کیا۔

یہ رپورٹ 15 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں