لاہور: حکومت پاکستان نے 1.57 ارب ڈالر کی لاگت سے بچھائی جانے والی لاہور تا مٹیاری 660 کلو وولٹ ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ ٹرانسمیشن لائن کے کنورٹر اسٹیشنز کی تعمیر کے لیے زمین کا قبضہ چینی کمپنی کو دے دیا۔

اس سلسلے میں 175 ایکڑ رقبے کی دو زمینوں کا انتظام چین کی سرکاری کمپنی اسٹیٹ گرڈ کوآپریشن آف چائنا کی ذیلی کمپنی چائنا الیکٹرک پاور ایکوئپمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ (سی ای ٹی) کے حوالے کیا۔

زمین کے یہ دو ٹکڑے گزشتہ دنوں نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی لمیٹڈ (این ٹی ڈی سی ایل) نے ان کے مالکان سے حاصل کیے تھے۔

زمین کا ایک حصہ بھائی پورہ (بالوکی) میں واقع ہے جو کے لاہور سے50 کلو میٹر دور ہے جبکہ دوسرا حصہ حیدرآباد کے ضلع مٹیاری میں واقع ہے۔

مٹیاری-لاہور ٹرانسمیشن لائن چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے اور پاکستان کا پہلا میگا پروجیکٹ ہے جو ڈائریکٹ کرنٹ (ڈی سی) پر مبنی ہے جبکہ اس ٹرانمیشن لائن میں 4 ہزار میگا واٹ بجلی کی ترسیل کی صلاحیت موجود ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی توقع نہیں: نیپرا

حکومت کا ارادہ ہے مارچ تک اس پراجیکٹ پر کام شروع کردیا جائے کیوں کہ فی الحال کنٹریکٹر سی ای ٹی اور کلائنٹ این ٹی ڈی سی ایل کے درمیان ابتدائی کام جاری ہے۔

وزارت پانی و بجلی کے ایک عہدے دار کے مطابق 'بالوکی (بھارئی پورہ ،لاہور) کے قریب دو بڑے کنورٹر اسٹیشنز کی تعمیر کے لیے اراضی کے حصول کا کام مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ لاہور کی زمین کا انتظام بھی چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ جلد ہی حیدرآباد میں حاصل کی گئی زمین بھی کمپنی کو دے دی جائے گی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے وزارت پانی و بجلی کے عہدے دار کا کہنا تھا اس ٹرانسمیشن لائن میں اتنی استعداد ہوگی کہ وہ 1300 میگا واٹ کی صلاحیت رکھنے والے 4 کول پاور پلانٹس اور مستقبل میں سندھ میں بننے والے دیگر پاور پلانٹس کی بجلی کی ترسیل کرسکے۔

حیدرآباد میں تعمیر ہونے والا کنورٹر اسٹیشن پاور پلانٹس سے موصول ہونے والے الٹرنیٹ کرنٹ (اے سی) کو ڈائریکٹ کرنٹ (ڈی سی) میں تبدیل کرے گا اور پھر یہ بجلی اسی طرح آگے منتقل ہوگی۔

اسی طرح لاہور میں بننے والا کنورٹر اسٹیشن ڈی سی میں موصول ہونے والی بجلی کو اے سی میں تبدیل کرے گا اور اسے آگے بھیجے گا جہاں سے اس بجلی کو این ٹی ڈی سی ایل اور متعقلہ تقسیم کار کمپنیاں لیسکو، فیسکو، گیپکو اور آئیسکو صارفین تک پہنچائیں گی۔

مزید پڑھیں: ’سی پیک بھی ایسٹ انڈیا کمپنی بن سکتا ہے‘

عہدے دار کے مطابق کے مطابق یہ ٹرانسمیشن لائن حیدرآباد ،رحیم یار خان ، بہاولپور ،حاصل پور ،ویہاڑی ،ساہیوال ،قصور اور لاہور سے ہوکر گزرے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس منصوبے کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا توقع ہے کہ یہ پراجیکٹ اکتوبر 2019 کی ڈیڈ لائن تک مکمل ہوجائے گا۔

ٹرانسمیشن ٹیرف کے حوالے سے عہدے دار کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی اور این ٹی ڈی سی ایل کے درمیان اس حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی جس کے بعد 0.74 روپے فی یونٹ پر اتفاق کیا گیا۔

معاہدے کے مطابق کمپنی اس منصوبے کو بی او ٹی(بلڈ، آپریٹ اینڈ ٹرانسفر) کے تحت مکمل کرے گی اور پروجیکٹ کو 25 سال تک چلانے اور اس پر آنے والی لاگت وصول ہوجانے کے بعد اس کا انتظام حکومت کے حوالے کردے گی۔

تاہم ٹرانسمیشن لائن کی آپریشن اور مرمت این ٹی ڈی سی ایل کی ذمہ داری ہوگی۔

عہدے دار نے بتایا کہ 'معاہدے کے مطابق کنٹریکٹر زمین کے لیز کے اخراجات/ کرایہ حکومت کو ادا کرنے کا پابند ہوگا'۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں