اسلام آباد : وفاقی حکومت نے آف شور کمپنی مالکان کو تحفظ دینے اور ان کمپنیوں کا سرمایہ پاکستان لانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لانے کا منصوبہ تیار کرتے ہوئے مجوزہ مسودے تیار کر لیا۔

مجوزہ مسودے کے تحت سرمایہ واپس لانے کی صورت میں ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔

بل کے تحت بیرون ملک آف شور کمپنیز رکھنے والے پہلے 3 ماہ میں سرمایہ وطن واپس لانے کے بدلے صرف 5 فیصد ٹیکس دینے کے بعد کالے دھن کو سفید کر سکیں گے۔

آف شور کمپنیز مالکان کو تحفظ دینے اور ان کمپنیز کا سرمایہ وطن لانے کے ایمنسٹی بل کی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے بھی حمایت کی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آف شور ایمنسٹی اسکیم کا مجوزہ مسودہ تیار کرلیا، مجوزہ بل میں آف شور کمپنیز مالکان کو سرمایہ پاکستان منتقل کرنے کے لیے مختلف سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آف شور کمپنیوں کا قانونی و غیر قانونی استعمال

مجوزہ بل کے مسودے کے مطابق ایک سال کے دوران سرمایہ وطن واپس لانے کی صورت میں 10 فیصد ٹیکس دے کر کالا دھن سفید کیا جاسکے گا جب کہ 6 ماہ میں سرمایہ واپس لانے کی صورت مں 7 فیصد ٹیکس دے کر یہ سہولت حاصل کی جاسکے گی۔

مجوزہ بل میں آف شور کمپنیز مالکان کو بھی سہولیات فراہم کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں ملک میں جان و مال کی فکر کی وجہ سے لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں،لوگوں کو اثاثے ڈکلیئر کرنے کا ایک موقع دیا جانا چاہئیے۔

تحریک انصاف کے تحفظات

دوسری جانب حکومت کی جانب سے آف شور کمپنیز مالکان کے لیے ایمنسٹی اسکیم لانے والے مجوزہ منصوبے پر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

مزید پڑھیں: آف شور کمپنیاں: 336 نوٹسز پر صرف 57 افراد کے جوابات

ڈان نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آف شور کمپنز مالکان کے لیے اس وقت ایمنسٹی اسکیم لانا مناسب نہیں۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق لوٹ مار کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا مناسب نہیں ہوگا، جب کہ حکومت کی جانب سے پہلے متعارف کرائی گئی ساری ایمنسٹی اسکیمیں ناکام رہی ہیں۔

حکومت کی جانب سے آف شور کمپنیز کے حوالے سے ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے فوری طور پر دیگر جماعتوں کی جانب سے مؤقف سامنے نہیں آسکا۔

خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے ایک ایسے وقت میں آف شور کمپنیز کے لیے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جب وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں اور بیٹی کی مبینہ آف شور کمپنیز سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس اور آف شور کے لیے ٹی او آرز کمیٹی پر اتفاق

سپریم کورٹ میں زیر سماعت پاناما پیپرز اسکینڈل کے تحت وزیر اعظم کے اہل خانہ سمیت کئی دیگر نامور پاکستانیوں کی بیرون ممالک میں آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

پاناما پیپرز کے مطابق وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘، آف شور کمپنیز کے حوالے سے پاناما پیپرز اسکینڈل ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

آف شور کمپنیز کیا ہیں؟

کسی دوسرے ملک میں آف شور (بیرون ملک) بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالی لین دین عام طور پر ٹیکسوں اور مالی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

کوئی بھی انفرادی شخص یا کمپنی اس مقصد کے لیے اکثر و بیشتر شیل (غیر فعال) کمپنیوں کا استعمال کرتی ہے جن کے ذریعے ملکیت اور فنڈز سے متعلق معلومات کو چھپایا جاتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Khan Jan 24, 2017 07:47pm
مجہے افسوس نہیں جناب تیرے کاموں پہ شرمندگی ہے۔۔۔۔ کیونکہ میں سچا پاکستانی ہو۔