1981 میں میرے دادا کے دفتر میں ایک کتاب آئی۔ وہ ان کے ایک دور کے پراچہ کزن نے لکھی تھی۔ کتاب کا نام 'پراچہ قبیلے کی تاریخ اور کلچر' تھا۔ اردو میں تحریر کی گئی اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پراچہ قبیلہ ملکِ عرب میں رہنے والے ایک شخص علی یمنی کی نسل سے ہے، جس نے ساتویں صدی کے اوائل میں اسلام قبول کر لیا تھا۔

آگے چل کر کتاب کہتی ہے کہ بعد میں پراچہ قبیلہ فارس (موجودہ ایران) میں آ بسا، جہاں پراچہ تاجر بن گئے۔ فارس کے بعد اس قبیلے کی کئی شاخیں بنیں جو شمالی ہندوستان، وسطی ایشیاء اور افغانستان میں پھیل گئیں۔

جب میں نے یہ کتاب پڑھی، تب میں 14 سال کا تھا۔ یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ میں جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، نہ صرف یہ کہ وہ صدیوں سے مسلمان تھا، بلکہ اس تعلق عرب سے بھی تھا۔

مصنف نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی مستند حوالے نہیں دیے تھے، اور شاید یہ کہا تھا کہ انہوں نے یہ سب باتیں اپنے بڑوں سے سنی ہیں۔ مگر پراچہ قبیلے کی تاریخ کے بارے میں ان کا نظریہ بہت جلد پاکستان میں ان کے قبائلی بھائیوں میں مقبول ہوگیا۔

بھلے ہی لڑکپن میں میں اس کتاب میں کیے گئے دعووں پر یقین رکھتا تھا، مگر اس حوالے سے چیزیں اس وقت واضح ہونی شروع ہوئیں جب 1980 کی دہائی کے وسط اور اواخر میں میں یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔ ان دنوں میں نے کچھ ایسی کتابیں پڑھیں جن میں ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تاریخ پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ مجھے یہ پڑھ کر بہت خوشگوار احساس ہوا۔

پاکستان کے 'اصلاحی مؤرخین' مثلاً کے کے عزیز، ڈاکٹر مبارک علی اور عائشہ جلال نے جو مزید ایک کام کیا وہ یہ کہ مجھ جیسے نوجوانوں کو یہ بتا دیا کہ تاریخی حقائق کے طور پر پیش کیے دعووں کی کس طرح تصدیق (یا تردید) کی جائے۔

میں نے سوچا کہ پراچہ قبیلے کے بارے میں زبانی کہانیوں، اور جدید مذہبی، سماجی اور سیاسی رجحانات سے میل کھاتے نظریات سے آگے بھی بہت کچھ ہوگا۔ بس ڈھونڈنے کی دیر تھی۔

1993 میں اسلام آباد میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان میں میری نظر ایک پرانی گرد آلود کتاب پر پڑی۔ میں اس وقت اس شہر میں ایک انگریزی ہفتہ وار رسالے کے رپورٹر کے طور پر موجود تھا، جسے کراچی سے پہلی نواز حکومت کے خلاف بے نظیر بھٹو کے 'لانگ مارچ' کو کور کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مجھے وہ کتاب مارچ کے دو دن بعد ملی۔ کتاب کا نام تھا 'سرحد اور پنجاب کی ذاتیں اور قبیلے'۔

کتاب بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوئی تھی اور ایچ آرتھر روز نامی برطانوی بیوروکریٹ نے لکھی تھی جو اس وقت ہندوستان میں برطانوی حکومت میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہ ایک زبردست کتاب ہے جو 1883 اور 1892 میں برطانوی حکومت کی جانب سے پنجاب اور سرحد میں کروائی جانے والی مردم شمای کی دو تفصیلی رپورٹس پر مبنی ہے۔

اور اس کتاب میں پراچہ قبیلے سے متعلق ایک مکمل باب موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق پراچہ قبیلہ اکثریتی طور پر شمالی پنجاب کے پہاڑی علاقے پوٹھوہار میں اور پنجاب و سرحد کے سرحدی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ یہ اب بھی یہاں رہتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات (کم از کم میرے لیے) جو تھی وہ یہ کہ کتاب میں موجود 1883 کی مردم شماری کی رپورٹ میں قبیلے کے چند بزرگوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پراچہ قبیلے نے فارس سے زرتشتیوں کی صورت میں ہجرت کی اور ہندوستان آ کر بدھ مت اختیار کر لیا۔ اس کے بعد گیارہویں صدی میں اسلام قبول کر لیا۔

مگر جس طرح 1981 کی مشتبہ کتاب نے کیا تھا، انیسویں صدی کی مردم شماری کی رپورٹ بھی پراچہ بزرگوں کا حوالہ دے رہی تھی۔ بہرحال، ایک اور کتاب نے اس بات کی تصدیق کی جو انیسویں صدی کے بزرگ کہہ رہے تھے۔ 2007 میں شائع ہونے والی اس کتاب پاکستان تھرو دی ایجز میں معروف پاکستانی ماہرِ آثارِ قدیمہ، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات ڈاکٹر احمد حسن دانی ان قبیلوں کے نام لیتے ہیں جو پہلی اور تیسری صدی عیسوی میں افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں سلطنت قائم کرنے والے کشن لوگوں کے ہمراہ تھے۔

احمد حسن دانی کی تحقیق کے مطابق کشن فارس اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا مذہب زرتشت کی تعلیمات اور کلاسیکی یونانی دیومالا کا امتزاج تھا۔ سلطنت کے طاقتور ترین بادشاہ کنِشک کے دور میں سلطنت نے مکمل طور پر بدھ مت اختیار کر لیا۔ دانی کے مطابق کشن لوگوں کے ہمراہ ایک قبیلہ جو موجودہ پاکستان آیا، انہیں پِراچے کہا جاتا تھا، جو بعد میں پَراچہ یا پِراچہ بن گیا۔

میں ذاتی طور پر ایک قابل ماہرِ آثارِ قدیمہ و مؤرخ کے دعووں کو کسی ایسے شخص کی باتوں پر ترجیح دوں گا جس نے علی یمنی نام کے شخص کو صرف اس لیے گھڑا کیوں کہ اسے ملکِ عرب سے ہونے کا خیال بہت خوشنما لگتا تھا۔

خیر آج کل ڈی این اے کا ایک سادہ سا ٹیسٹ آپ کی لاکھوں سال کی نسلیں کھنگال سکتا ہے۔ اس پاکستانی امریکی لڑکے کی مثال دیکھیں جسے ہمیشہ یہ بتایا گیا تھا کہ اس کے اجداد عربستان سے آئے تھے، اور جب اس نے اگست 2016 میں اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ وہ 97 فیصد جنوبی ایشیائی تھا، اور صفر فیصد وسطی مشرقی۔ اس نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں خوشی خوشی ان نتائج کا اعلان بھی کیا۔

اپنی کتاب 'شناخت کی تلاش میں' میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ خطے کے مسلمانوں میں غیر جنوبی ایشیائی نسل ہونے کا دعویٰ کرنے کا رجحان اٹھارہویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے دوران شروع ہوا۔ ان کے مطابق مغل اپنے درباروں میں فارسی بولنے والے افراد کو ملازم رکھتے تھے۔ ان میں سے تقریباً تمام افراد فارس اور وسطی ایشیاء سے آئے تھے۔ مگر جب مغل سلطنت کا اثر و رسوخ ختم ہونے لگا تو ایسے لوگوں نے ہندوستان آنا چھوڑ دیا۔ ان کی جگہیں بتدریج مذہب تبدیل کرنے والے 'مقامی' لوگوں نے یا جنوبی ایشیائی افراد نے بھریں جو ہندو مت، بدھ مت، زرتشتی اور دیگر مذاہب سے مسلمان ہوئے تھے۔

ہندوستان میں مقامی مسلمانوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کے بعد کچھ وقت تک وہ اپنی 'مقامی' جڑوں پر فخر کرتے رہے (جس سے ہندوستان میں اردو کو فروغ حاصل ہوا)۔ مگر ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق جب وہ نئے درباریوں، تاجروں، زمینداروں، اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی مسلمان مڈل کلاس کے طور پر مستحکم ہوگئے، تو ان میں سے زیادہ تر نے اپنی تاریخ بدلنی شروع کر دی۔

کیوں کہ اشرافیہ ہونے کا تصور اب بھی غیر جنوبی ایشیائی مسلمانوں سے منسلک تھا، اور چوں کہ ہندوستانی مسلمان خود کو ایک الگ ثقافتی اکائی کے طور پر دیکھنے لگے تھے، اس لیے خود کو جنوبی ایشیا سے باہر کا قرار دینا روایت بننے لگا۔

یہ روایت پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہی، خاص طور پر 1970 کی دہائی کے وسط میں۔ ان دنوں تیل کی دولت سے مالامال وسطی مشرقی ریاستوں کے عروج اور 'سیاسی اسلام' کے پھیلاؤ کی وجہ سے خود کو عرب النسل قرار دینا عام ہونے لگا۔

مگر اس مسئلے کی زیادہ تر سماجی اور سیاسی پیچیدگیاں ہیومن مائٹوکونڈریئل ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے ایک جھٹکے میں سلجھائی جا سکتی ہیں۔ یہ آسان ہے اور کافی سستا بھی ہے۔ 15000 روپے سے کم میں آپ بھی یہ کروا سکتے ہیں۔

1987 میں تین مشہور ماہرینِ جینیات کین، اسٹونکنگ اور ولسن نے دنیا بھر سے دنیا بھر میں کیے گئے ایک ڈی این اے سروے کی ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی تھی۔ سروے میں دنیا کے کونے کونے سے کئی مرد و خواتین کے ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے تاکہ یہ پتہ چلایا جائے کہ کون کہاں سے تعلق رکھتا ہے۔

جب انہوں نے مزید گہرائی اور ماضی میں جھانکا تو پایا کہ کرہءِ ارض پر موجود تمام انسانوں کا مائیٹوکونڈریئل ڈی این اے ایک ہی خاتون سے جا ملتا ہے جو 2 لاکھ سال قبل افریقا میں رہتی تھیں۔

چنانچہ سائنسدان یہ بات مانتے ہیں کہ چاہے آپ کا مذہب، زبان، قومیت، آبا و اجداد، یا رنگت کوئی سی بھی ہو، آپ چاہے مرد ہوں یا عورت، سب اس ایک خاتون کی نسل سے ہیں جو زمانہ قبل از تاریخ میں افریقا میں رہتی تھی۔ یہ بلاشبہ ایک نہایت منکسر خیال ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 جنوری 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

عائشہ Feb 12, 2017 12:46pm
پاکستان کے 'اصلاحی مؤرخین' یہ ایک خطرناک ٹرم ہیں
haBIB Feb 12, 2017 06:32pm
لہذا ہمیں ہند و پاک میں موجود نام نہاد ذات پات سے گریز کرنا چاہیے، اگر کوئی بہت ہی زیادہ اپنی ذات پر اترتا ہو تو اس کو 15000 روپے دے کر ڈی این اے ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ تاکہ اس کی غلط فہمی دور ہوجائے اور وہ ہماری طرح اپنی اوقات میں رہے۔ہم تو سب کو حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد اور اپنے برابر سمجھتے ہیں۔