اسلام آباد: الیکشن کمیشن (ای سی پی) نے عام انتخابات 2018 میں آخری وقت میں کسی بھی مسئلے کا سامنے کرنے سے بچنے کے لیے ابھی سے بھرپور مشق شروع کرنے کی تیاری کرلی۔

ویب سائٹ پر جاری کردہ ’روڈ ٹو الیکشن 2018‘ کے نام سے دستاویز کے مطابق تمام صوبائی چیف سیکریٹریز، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وفاقی اداروں کے سربراہوں کو 2016 میں ان افراد کی فہرست فراہم کرنے کا کہا گیا تھا، جو جنوری 2018 میں دستیاب ہوں گے۔

حکم میں کہا گیا تھا کہ جن مطلوبہ افراد کو تربیت دی جائے گی ان کی عمر 55 برس سے کم ہو، کمپیوٹر کی تعلیم رکھتے، سمارٹ فونز کا استعمال جاننے کے ساتھ ساتھ اچھی شہرت بھی رکھتے ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کس طرح کی؟

دستاویزات کے مطابق 31 دسمبر 2016 تک وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے 50 ہزار افسران کے نام موصول ہوئے، تیارکردہ ڈیٹا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ تفصیلات اور افسران کو منصوبے کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دستاویز کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن افسران کی مطلوبہ 70 ہزار اہلکار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ ان کی تربیت کا آغاز رواں برس جون سے ہوگا۔

اس حوالے سے تربیتی مواد اور لاجسٹک انتظامات کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے، فیڈرل الیکشن اکیڈمی (ایف ای اے) نے کرائے پر حاصل کیے گئے پوسٹل اسٹاف کالج اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے ریگولر عملے اور افسران کی تربیت کا آغاز کردیا ہے ۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے گریڈ 8 سے گریڈ 21 کے تمام 1649 افسران اور ملازمین کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل تربیت دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اس حوالے سے ایک ٹریننگ ونگ بھی قائم کیا گیا ہے جو فعال طور پر اندرون و بیرون ملک کے تربیتی اداروں اور تحقیق سے منسلک اداروں سے رابطے میں ہے، جس سے امید ہے کہ عملے کی صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی۔

حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران ملک بھر میں تقریبا 75 ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے تھے، جن کے وجود کی حیثیت اور تصدیق کے لیے متعلقہ صوبائی حکومتوں اور محکمہ بلدیات کے ساتھ مل کرایک مشق کی جا رہی ہے، 31 دسمبر 2016 تک ملک بھر سے 11 ہزار 81 پولنگ اسٹیشنز کی تصدیق ہوچکی تھی، جن کے مقامات اور نقشے عوامی معلومات کے لیے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے تحت ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیئے گئے ہیں ۔

الیکشن کمیشن کو امید ہے کہ اس حوالے سے تمام مشقیں رواں برس 30 جون تک مکمل ہوجائیں گی۔

مزید پڑھیں: ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بھی باآسانی دھاندلی ممکن‘

ٹیکنالوجی کے استعمال سےغیر متعلقہ حکام کی جانب سے پولنگ اسٹیشنز کو تبدیل کرنے جیسے صوابدیدی اختیارات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی، جب کہ منظور کیے گئے پولنگ اسٹیشن کی معلومات کو الیکشن کمیشن کے عوامی معلومات کے نمبر 8300 سے بھی منسلک کیا جائے گا۔

دستاویز کے مطابق الیکشن بل کا مسودہ رواں سال منظور ہونے کی امکان ہے جبکہ امید کی جا رہی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے نفاذ سے قوانین آسان اور انتخابی نظام مضبوط ہوگا۔

الیکشن کمیشن کے اپنے کمپیوٹرائزڈ الیکٹرول رولز سسٹم (سی ای آر ایس) کی تیاری کے بعد ووٹ کے اندراج اور ان میں اصلاحات یکم جنوری 2017 سے شروع کیا گیا ہے، جب کہ اس سسٹم کا نظام سیکریٹریٹ، صوبوں اور ضلعی الیکشن کمیشن کے دفاتر میں نصب کیا جارہا ہے۔

نظام کو نصب کیے جانے کے بعد تمام دفاتر اس سے انٹرنیٹ سروس کے ذریعے منسلک ہوجائیں گے، جس کے بعد نظام میں موجود ایپلی کیشن کے ذریعے تمام ضلعی متعلقہ حکام نئے ووٹوں کے اندراج سمیت درج ووٹوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرکے ڈیٹا بینک میں منتقل کردیں گے۔

الیکشن کمیشن میں الیکٹرول سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے خصوصی مانیٹرنگ ونگ قائم کیاگیا ہے، جو پولنگ سے پہلے، پولنگ کے دن اور پولنگ کے بعد کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لے گا، اس حوالے سے مانیٹرنگ ونگ سمیت فنانشل اور لاجسٹک کے لیے 141 نئے عہدوں کی جگہ بنانے اور ان پر تقرریوں کے لیے حکومت سے رابطہ کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات کے دوران ملٹی الیکٹرول ٹیکنالوجیز استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ،اس حوالے سے ضمنی انتخابات کے دوران موبائل ایپ کو نتائج کے مؤثر روابط کے لیے رزلٹس مینجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) کے تحت ٹیسٹ بھی کیا گیا، جب کہ اس مقصد کے لیے 200 گیگابائٹ (جی بی) کا ایک سرورآپریشنل بھی ہے۔

دستاویزات بتاتے ہیں کہ 400 الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں اور 300 بائیومیٹرک ویری فکیشن مشینوں کی خریداری آخری مراحل میں ہے، ان مشینوں کو 2018 کے بعد ضمنی انتخابات میں پائلٹ ٹیسٹ کے ذریعے استعمال کیا جائےگا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت

دستاویز میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کیبنٹ ڈویژن نے 20 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کی استعداد بڑھانے اور نئی مشینری خریدنے کے لیے 86 کروڑ 40 لاکھ روپے فنڈز کی سمری منظوری کے لیے وزیر اعطم کو بھیج دی ہے۔

بیرون ملک ووٹنگ سے متعلق یہ دستاویزات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان کے پاس بیرون ملک ووٹنگ کے لیے محدود آپشن ہیں۔

رپورٹ کثیر قانونی، مالی اور لاجسٹک معاملات کا تقاضہ کرتی ہے، رپورٹ یہ بھی سمجھاتی ہے کہ بیرون ملک کے ووٹ خریدنا یا ووٹ کے لیے کسی کو مجبور کرنے کا عمل فرضی شخصیت جیسے عوامل اور داندھلی کا سبب بن سکتاہے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ سوئٹزرلینڈ نے اپنے ایک لاکھ 32 ہزار ووٹرز کے لیے سال 2000 سے اس وقت تک 229 سروے کرائے جب تک بیرون ملک ووٹنگ کے لیے انٹرنیٹ متعارف نہیں کرائی گئی اور ملک کی فیڈرل کونسل نے بھی انٹرنیٹ متعارف کرانے سے قبل سب سے پہلے سیکیورٹی کو بنیادی اہمیت قرار دیا۔

دستاویز کہتے ہیں کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) اورالیکشن کمیشن کی جانب سے قانونی، آپریشنل اور سیکیورٹی معاملات کا جائزہ لینے کے بعد ان مسائل پرپارلیمنٹ میں فزیبلی رپورٹ پیش کی جائے گی۔


یہ خبر 29 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں