اسلام آباد: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور تہذیب (یونیسکو) نے تہذیبی اور قدرتی اہمیت کے حامل 8 پاکستانی مقامات کو عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔

محکمہ آرکیالوجی اور میوزیم (ڈی او اے ایم) کی جانب سے مرتب کردہ فہرست میں چولستان کے قلعہ دراوڑ، بلوچستان میں ہنگول کے تہذیبی مقامات، سندھ کے ریگستانی علاقے نگرپارکر کے مناظر، گلگت بلتستان میں موجود قراقرم اور دیوسائی نیشنل پارک، بلوچستان میں زیارت، جونیپر کے جنگلات اور کاریز سسٹم کے مناظر سمیت پنجاب میں موجود کھیوڑہ کی نمک کی کان کو یونیسکو بھیجا گیا تھا اور انھیں دنیا کے قدیم وراثتی مقامات میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر سعید کے مطابق یونیسکو کو ان مقامات کی اہمیت کا اندازہ دلانا ایک اہم اقدام تھا۔

طاہر سعید کا کہنا تھا کہ یونیسکو سے منظوری کے بعد اگلا اہم کام ان تمام مقامات کی رپورٹ تیار کرنا ہے، ہر مقام کی رپورٹ تیار کرنے میں 2 سے 3 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، اس رپورٹ کے ذریعے پاکستان یونیسکو کو اس منصوبہ بندی سے آگاہ کرے گا جس سے وہ ان مقامات کا تحفظ اور دیکھ بھال کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا بھر سے آنے والے افراد یہاں تک رسائی اور آسان سہولیات حاصل کرسکیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق اس کے علاوہ بھی یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثے کا حصہ بننے کی اور بہت سی شرائط ہیں جنہیں پورا کیا جانا ضروری ہے۔

ان تاریخی مقامات کو عالمی ورثے میں شامل کرنے کی درخواست اچانک ہی سامنے آئی ہے جبکہ پاکستان میں تاریخی اہمیت کے حامل بیشتر مقامات نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے تباہی اور تجاوزات سے متاثر ہیں۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی لاہور کے پانچ مقامات شالیمار باغ، گلابی باغ، بدھو کا گنبد، چوبرجی اور زیب النساء گنبد کے حوالے سے ان تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ نئی ترقیاتی اسکیموں سے ان کے متاثر ہونے کا خطرہ تھا کیونکہ یہ مقامات اورنج لائن منصوبے کے راستے میں موجود تھے۔

1995-96 میں یونیسکو کی جانب سے لاہور کے شالیمار باغ کو عالمی ورثے کی فہرست میں سے ہٹایا گیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے واٹر پمپ سسٹم کو تباہ کرنے کی وجہ سے اسے خطرے کا شکار قرار دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ تباہ کیا گیا واٹر سسٹم 450 سالہ قدیم باغات کے 400 سے زائد فواروں کو پانی پہنچانے کا ذریعہ تھا۔

دو سال قبل عالمی ورثے میں شامل ٹیکسلا کا دھرناراجیکا مقام بھی فوجی حکام کی جانب سے بند کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بدھا کی جائے پیدائش قرار دیئے جانے والے مقام تک رسائی ممکن نہیں رہی تھی۔

2004 میں یونیسکو نے ہڑپہ، بلتت قلعہ، رحمٰن ڈھیری، مہر گڑھ سمیت مانسہرہ اور شہباز گڑھی کے چٹانی مقامات کو عالمی ورثے میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی تاہم پاکستان ان مقامات کی مطلوبہ رپورٹس یونیسکو میں جمع نہیں کراسکا تھا۔


یہ خبر 30 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 30, 2017 06:22pm
السلام علیکم: جو ہے وہ تو سنبھالے نہیں جارہے، اورنج ٹرین سے لاہور کے پانچ تاریخی مقامات شالیمار باغ، گلابی باغ، بدھو کا گنبد، چوبرجی اور زیب النسا گنبد متاثر ہورہے ہیں مگر پنجاب و وفاقی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ خیرخواہ