کراچی: ملک میں سول انجینئرنگ کے شعبے میں ترقی کے باوجود کراچی میں سڑکوں کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے سالانہ ہزاروں ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں سیکڑوں شہریوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں جبکہ ان حادثات کا باعث بننے والے عوامل کے تدارک کی فوری ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں ہونے والے سالانہ 30 سے 32 ہزار ٹریفک حادثات میں 35 فیصد حادثات سڑکوں کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے پیش آرہے ہیں۔

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ شہری اور بنیادی ڈھانچہ انجینئرنگ کے سربراہ پروفیسر میر صابر علی کا کہنا تھا کہ 'اس شرح کے مطابق ان ٹریفک حادثات کی تعداد 10500 سالانہ ہے، یہ بہت زیادہ ہے، ہم یقین کرتے ہیں کہ شہر میں تعمیر ہونے والی نئی سڑکوں میں ان مسائل کو حل کیا جائے گا'۔

پروفیسر کے مطابق کراچی میں غلط سڑکوں کے ڈیزائن کی ایک بڑی وجہ یہاں سے سروس لین کو ختم کیا جانا ہے جو کہ ڈرائیوروں کو رونگ سائیڈ یا غلط جانب سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ روڈ سیفٹی اور روڈ کارکردگی دونوں کی برابر اہمیت موجود ہے اور حکام کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ ان دونوں کی اہمیت کو سمجھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ این ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق صرف غلط سمت میں گاڑی چلانے کے باعث ہونے والے حادثات سالانہ حادثات کا 25 فیصد (یعنی 7500 حادثات) ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'حکومت سڑکوں کی مرمت اور تعمیر میں اربوں روپے خرچ کررہی ہے اور یہی صحیح موقع ہے کہ وہ اس مسئلے کو بھی حل کرے'۔

خطرناک یوٹرنز

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر ڈاکٹر سلمان زبیر نے غلط روڈ ڈیزائن کے حوالے ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جانب سے 2015 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وسطی یا سڑکوں کے درمیان تعمیر کیے جانے والے یوٹرنز حادثات کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شہر میں قائم 120 یوٹرنز کی جانچ پڑتال کے مطابق 87 غیر وسطی یوٹرنز تھے جبکہ 33 وسطی یوٹرنز تھے، ان یوٹرنز کے اطراف میں موجود دکانوں یا تجارتی مراکز پر کام کرنے والے افراد کے لیے گئے انٹرویوز کے مطابق ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ لوگ حادثات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جو سڑکوں کے درمیان میں موجود یوٹرنز کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں'۔

انھوں نے بتایا کہ بعض وسطی یا درمیانی یوٹرنز پر رفلیکٹر بھی موجود نہیں تھے، وہ کچھ جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور یہ دیکھا جاسکتا تھا کہ یہاں کم سے کم ایک مرتبہ حادثہ ضرور ہوا ہے۔

پروفیسر کا کہنا تھا کہ حال ہی میں کچھ سول ایجنسیز نے شہر کے مختلف مقامات سے 2 یا 3 درمیانی یوٹرنز ختم کیے ہیں تاہم شہر کے بیشتر علاقوں، جن میں پرانی سبزیہ منڈی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد اور شہید ملت روڈ شامل ہیں، یہ یوٹرنز اب بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو شہری علاقوں کے انجینرنگ ماہرین کو محفوظ وسطی یوٹرنز کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے، اس وقت یہ بہت ہی خطرناک ہیں کیونکہ ان پر کسی قسم کی نشاندہی موجود نہیں جو ڈرائیورز کو ایک ٹھوس انتباہ کرسکے'۔

انھوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر گاڑیاں درمیانی یوٹرنز سے ٹکرا جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہتر ہوگا کہ انھیں مکمل طور پر ختم کردینا چاہیے جیسا کہ لوگوں میں سڑکوں پر گاڑیاں چلانے اور سفر کرنے کے قوانین کا احساس نہیں ہے جبکہ حکومت کو بھی ان غلط ڈیزائنز کے باعث ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع پر کوئی پریشانی نہیں ہے'۔

انھوں نے دیگر شہروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ 'دنیا میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ایشیا میں پاکستان کا پہلا جبکہ دنیا میں 48واں نمبر ہے دوسری جانب کراچی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، ان حادثات میں متعدد عوامل شامل ہیں، جن میں سڑک استعمال کرنے والے کی غلطی بھی شامل ہے'۔

یہ رپورٹ یکم فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 01, 2017 06:32pm
السلام علیکم: سڑکوں کی غلط ڈیزائن کے ساتھ ساتھ سروس لین ختم ہونے سے بہت زیادہ حادثات ہورہے ہیں ، اس طرح شہر کی مرکزی شاہرائوں کو کمرشل ایریا قرار دینے سے سڑکوں کے قریب بلندبالا عمارتیں قائم ہوگئی ہیں۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ نے بھی ان کی بے دھڑک منظوری دے دی، ایک بنگلے پر بنی عمارت میں اوپر فلیٹوں کی بھرمار اور نیچے دکانیں بنا دی جاتی ہے، جبکہ ان نئی بنائی عمارتوں میں پارکنگ کی انتہائی کم جگہ ہوتی ہے ، جیسا کہ کلفٹن بلاک 8 چوہدری خلیق الزماں روڈ کے بنگلوں پر کئی پلازے قائم کردیے گئے ہیں، جب یہ پلازے نہیں تھے تو سڑک چوڑی تھی مگر ان پلازوں کے باعث سڑک انتہائی تنگ ہوگئی ہے کیونکہ دکانوں کے مالکان کی گاڑیاں، کام کرنے والوں کی موٹر سائیکلیں، خریداری کرنے والوں کی گاڑیاں، سامان لانے و لے جانیوالی گاڑیاں اور فلیٹوں کے رہائشیوں کے مہمانوں کی گاڑیوں سمیت چھابڑی والے، ریڑھیوں والے اس سڑک پر آگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام شہریوں کو انتہائی سخت مشکلات اور حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے مگر کوئی اس کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں، تمام کمرشل کی گئی سڑکوں پر یہ ہی صورتحال ہے ۔ خیرخواہ