لکھاری وکیل ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹیکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔
لکھاری وکیل ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹیکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

27 جنوری 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس نوّے روزہ پابندی کی زد میں جو ممالک آئے ہیں، وہ ایران، عراق، یمن، صومالیہ، شام، سوڈان اور لیبیا ہیں؛ اس کے علاوہ تمام شامی مہاجرین پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مبہم الفاظ والے اس حکمنامے سے یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا کے مستقل طور پر قانونی رہائشی (حاملِ گرین کارڈ) افراد اس پابندی میں شامل ہیں یا نہیں۔

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان متاثرہ ممالک کو آگاہ کیا، بلکہ اپنے نظامِ عدالت اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کو بھی آگاہ نہیں کیا کہ ایسی کوئی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ امریکی بارڈر حکام جنہوں نے اس قانون پر عمل کروانا تھا، انہیں بھی اس قانون کے بارے میں تب تک معلوم نہیں تھا جب تک کہ صدر نے اس پر دستخط نہیں کر دیے۔

پابندی عائد کیے جانے کے بعد کے دنوں میں جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ پوری دنیا کی نظروں میں ہے۔ جس رات قانون پر دستخط کیے گئے، اسی مظاہرین کے ہجوموں نے امریکی ایئرپورٹس کا گھیراؤ کر لیا۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر مہاجرین کو خوش آمدید کہتے نعرے درج تھے۔

شہری آزادیوں کے لیے کوشاں امریکی غیر سرکاری تنظیم امیریکن سول لبرٹیز یونین نے ویزا رکھنے والے غیر ملکیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی اور ملک بدر کیے جانے کے خلاف مقدمات دائر کیے، اور جیتے بھی۔

اب وکلاء کی کئی ٹیمیں بڑے امریکی ایئرپورٹس پر جمع ہیں جو امریکی عدلیہ کے احکامات کے باوجود حراست میں رکھے جانے والے غیر ملکیوں کو قانونی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

نیویارک میں کانگریس کے نمائندگان نے گھنٹوں انتظار کیا تاکہ ایئرپورٹ پر حراست میں رکھے گئے تمام افراد کو چھوڑ دیا جائے۔ اتوار کی شام تک ایسا محسوس ہوا جیسے وائٹ ہاؤس اور ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی پیچھے ہٹ رہے تھے، کیوں کہ وضاحت جاری کی گئی کہ پابندی کا اطلاق گرین کارڈ رکھنے والوں پر نہیں ہوگا۔ مگر یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ آیا صدارتی حکمنامے کے اصل متن میں تبدیلی کرتے ہوئے اس نئی تشریح کی گنجائش پیدا کی جائے گی یا نہیں۔

امریکا جیسے مظاہرے یورپ میں بھی دیکھے گئے۔ یورپ کے کئی شہروں میں ہفتے اور اتوار کے دن مہاجرین اور تارکینِ وطن، اور ان کی حمایت میں کھڑے امریکی مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔

کینیڈین وزیرِ اعظم نے پابندی کی مذمت کرتے ہوئے ان افراد کو عارضی طور پر کینیڈا میں پناہ فراہم کرنے کا اعلان کیا جنہیں امریکا سے واپس بھیجا جا رہا تھا۔ پیر کے روز برطانوی وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے مظاہرہ کیا گیا، جس میں شامل مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ برطانوی وزیرِ اعظم تھیریسا مے امریکی صدر کے حکمنامے کی مذمت کریں۔ یہاں تک کہ اسرائیلی شہریوں نے بھی تل ابیب کی سڑکوں پر امریکا کی مسلمانوں پر پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا۔

اور ایک ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اتوار کے روز صدر ٹرمپ نے کئی عالمی رہنماؤں کو فون کیے۔ اس میں دوسروں کے ساتھ سعودی فرماں روا بھی شامل تھے۔ ٹیلی فون کال کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے شامی جنگ سے دربدر ہونے والوں کے لیے شام میں ہی ایک محفوظ علاقہ بنانے پر بھی غور کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے مسلمانوں پر اس پابندی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اور اگر بات کی بھی گئی تھی، تو بھی امریکی یا سعودی سرکاری ذرائع نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے جمعے کے واقعات، امریکا کے ایئرپورٹس پر ہزاروں افراد کو گھنٹوں تک حراست میں رکھنے، ان کی حمایت میں مظاہرے، اور دنیا بھر میں اس بات پر شور و ہنگامہ ہوا ہی نہیں۔

یہ تضاد ان سوالوں کو جنم دیتا ہے جن پر مسلمان ملکوں کے کم ہی لوگ غور کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بااثر ترین اور امیر ترین مسلم ممالک کس قدر خود غرض ہیں۔ اس وقت جب عام امریکی سخت ترین سردی میں اس چیز کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے جو ان کے نزدیک ناانصافی تھی، مسلم حکمرانوں نے اس مسئلے کو ذرا بھی قابلِ توجہ نہیں سمجھا۔

دوسری جانب امریکی شہری اپنے نام پر کسی سے بھی قومیت اور مذہب کی بناء پر تفریق کی اجازت دینے کے لیے راضی نہیں تھے۔ جب جب تارکینِ وطن امریکی ایئرپورٹس کے محفوظ حصوں سے نکل کر لاؤنج میں پہنچ رہے تھے، تو اجنبیوں کے مجمعے انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔

ویسے تو پاکستانی اب تک پابندی کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ ایسا جلد ہوگا۔ اس سے وہ تمام پاکستانی متاثر ہوں گے جو فی الوقت امریکا میں پڑھ رہے ہیں، میڈیکل تربیت حاصل کر رہے ہیں یا کام کر رہے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ پابندی، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پابندی ایک امتیازی قانون ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ لاکھوں معصوم اور بے گناہ مسلمان اس کی قیمت ادا کریں گے۔

امکان ہے کہ پاکستانی بھی ان میں شامل ہوں۔ طلباء اور سائنسدان اور وہ تمام وائٹ کالر لوگ جو پاکستان بیرونِ ملک برآمد کرتا ہے، انہیں یہ اپنے ساتھ زیادتی محسوس ہوگی۔

اور ان کا دعویٰ درست بھی ہوگا؛ کیوں کہ بہرحال مذہب کی بنآء پر تفریق ہمیشہ غلط ہے، چاہے جو بھی ملک ایسا کرے۔ لیکن اس وقت جب پاکستانی امریکی اور یورپی ممالک کی جانب سے ویزا درخواستیں مسترد کرنے کے خلاف ایسا سمجھتے ہیں، اسی وقت وہ اپنے ملک میں موجود ایسے ہی مسائل کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگر ایک دہشتگرد کی وجہ سے تمام پاکستانی دہشتگرد نہیں قرار دیے جا سکتے، تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کئی اسرائیلی ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے حامی ہوں؟

لیکن پھر بھی پاکستانی یا تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، یا اس حقیقت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھانا چاہتے کہ کوئی بھی اسرائیلی شہری (چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو)، پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح سے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ اتنے ہی پاکستانی شہری ایئرپورٹس یا سرحدی چیک پوسٹس پر عیسائی یا افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے نظر آئیں۔

مسلمان اور باالخصوص پاکستانی امریکا اور مغرب سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہیں، اور خود اپنے ممالک میں کس سلوک پر عمل پیرا ہیں، اس میں ایک خلیج موجود ہے، اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اگر مذہب کی بناء پر تفریق غلط ہے، اگر سرحدوں پر لگائی گئی پابندیاں ظالمانہ ہیں، تو وہ تفریق اور وہ پابندیاں بھی ظالمانہ ہیں جو ہم خود لگاتے ہیں۔

نفرت، چاہے ملک میں ہو یا ملک سے باہر، ایک زہریلا عفریت ہے۔ سرحدیں بند کرنا اور کچھ غلط لوگوں کی وجہ سے تمام پر پابندیاں لگانا ہمیشہ غلط ہے، نہ یہاں، نہ وہاں، بلکہ ہر جگہ۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 فروری 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (9) بند ہیں

Imran Feb 01, 2017 06:10pm
Hameen apnay brother islami mulk sy aur apny muslim leaders say assi hi umeed thi ye koi nai baat nai hai. Nai baat tu ye ho gi jab Muslims khood apny leaders k khilaf awaz uthaeen gaay aur bahir niklain gaay. Kalam barhal pasand aya. kisi ny tu himat ki brother islami mulk per baat kerny ki.
جواد Feb 01, 2017 06:10pm
ہم تو فی الحال افغان مہاجرین سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں
amjad iqbal Feb 01, 2017 06:50pm
Dear Rafia, ap ka kalam par kar bohot acha laga but kuch batay hai, kuch me sa ik baat bayan karo ga, jo ap k blog k naam per hai, k jab sa hosh sambala hai tab sa aj tak kabi nai suna k non muslim mohajir, ye pehli bar ap k kalam me suna or wo bi ap kahti hai k pakistani excep karay ga k nai ye tu bat ki bad hai, poora dunya me jo kuch ho raha hai, agar toora sa zeehan pe zor deya jaye tu samj aye gi k ye serf or serf muslim k khelaf ho raha hai, Q k muslim ko marna k leya muslim ko use karta hai or muslim use hota hai, ik pasport ki copy sa pata laga leeta hai k ya muslim te or afghani te jis na WTC per hamla keya hai, wo bat jo hai bi nai laken iraq pe toot paray or bad me ghalti be maan le, egypt - syria me Q halat kharab hai abi tak excat thing samaj me nai aye, kashmir ka tu khair serf pak indo jang hai, russia or america k apas me nai banti tu darmayn me muslim pees rahe hai, Palestine pe israel kabeez ho jata hai tu palestine ko google sa nekal leta hai,
eMRAAN Feb 01, 2017 07:26pm
Humanity should be first.
ahmak adamı Feb 01, 2017 09:33pm
27 جنوری 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک صدارتی حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت ایران، عراق، یمن، صومالیہ، شام، سوڈان اور لیبیا مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔اسی طرح سے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ اتنے ہی پاکستانی شہری ایئرپورٹس یا سرحدی چیک پوسٹس پر عیسائی یا افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے نظر آئیں۔ہیںDo you think we accepted Afghans for about 40 years without saying them welcome? Do you think Afghan immigrants in many parts of Baluchistan have over populated the local population and this is without welcome? every person and nation works differently?please do not become part of enemies prpaganda ?
ahmak adamı Feb 01, 2017 09:35pm
@جواد no such intention is shown by any person. It is the government that issues such directives from time to time just to divert attention of people from the main issue like panama.
ANONYMOUS Feb 01, 2017 10:58pm
This is based on a hypothetical scenario. We do not know how nation will react when such a time will come. In 1980s we did not like refugees because they were the means of importing drugs, ammunition and violence into the country. Now, we want to keep them on humanitarian grounds. One thing that is very important to consider are internal matters of the country when taking or not letting in the refugees or foreigners into the country. If Pakistani nation becomes a happy nation and no longer has to deal with load shedding, unemployment, poor quality of drinking water, health, then it is most likely that they will happily support and help troubled people in other parts of the country. Pakistani nation is a good nation. It is just that they haven't seen good days yet.
Irfan Feb 02, 2017 06:38am
ہم کچھ بھی نہیں تھے جب تیس لاکھ افغانیوں کو پناہ دی۔ ہم امریکہ جتنے طاقتور ہوں جاہیں تو ہم ہر ملک سے سب کو خوش آمدید کہیں گے۔
زیدی Feb 02, 2017 09:11am
اس سے یہ فیصلہ ھو گیا ہے کہ امریکی نواز حکومتیں کون سی ہیں اور نام نہاد مسلم اتحاد در حقیقت امریکہ کے مخالفین کے خلاف مسلم ممالک کو استعمال کرنا ہے