اسلام آباد: وفاقی وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں تفصیلی جواب جمع کرادیا ہے جس میں کوئٹہ انکوئری کمیشن کی دہشت گردی کے حوالے سے رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے غیر ضروری، بلا جواز اور قدرتی انصاف کی خلاف ورزی کہا ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 'یہ منفی ریمارکس اور مشاہدے بغیر کسی ثبوت کے پیش کیے گئے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نہ صرف متاثرہ افراد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملوث افراد کے حوصلوں پر منفی اثرات مرتب کررہی ہیں'۔

19 جنوری کو عدالت نے وزارت داخلہ کو کوئٹہ دہشت گردی کے سانحہ کے حوالے سے جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے تحت قائم کمیشن کی رپورٹ پر جواب جمع کرانے کی اجازت دی تھی، قاضی فیض عیسیٰ نے اپنی رپورٹ میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اور تین کالعدم تنظیموں کے سربراہ، جن میں سپاہ صحابہ پاکستان، ملت اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت شامل ہیں، مولانا محمد احمد لدھیانوی سے 21 اکتوبر 2016 کی ملاقات پر تنقید کی تھی۔

مذکورہ ملاقات اسلام آباد کے ریڈ زون میں قائم پنجاب ہاؤس میں ہوئی تھی۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں وزارت کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کی مولانا احمد لودھیانوی سے ملاقات طے نہیں تھی جیسا کہ کمیشن کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ وزیر داخلہ کی دفاع پاکستان کونسل (ڈی سی پی) کے وفد سے ملاقات طے تھی، جو کالعدم تنظیم نہیں ہے، جبکہ اس میں 35 مذہبی اور سیاسی جماعتیں، جن میں جمعیت علماء اسلام (س)، جمعیت علماء پاکستان، مسلم کانفرنس آزاد کشمیر، جماعت الدعوہ، مسلم لیگ (ضیاء) اور عوامی مسلم لیگ وغیرہ شامل ہیں، یہ اتحاد نومبر 2011 میں قائم ہوا تھا۔

وزارت داخلہ کے جواب کے مطابق وزیر داخلہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ مولانا احمد لودھیانوی بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ ہوں گے کیونکہ ان کی آمد کے حوالے سے پہلے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

ملاقات کا مقصد انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے افراد کے کمپیوٹرائز شناختی کارڈز کی معطلی یا بلاک کرنے کے معاملے پر بات چیت کرنا تھا۔

جواب میں یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ اے ٹی اے کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل ان افراد سے ملاقات پر پابندی عائد نہیں ہے اگرچہ وہ شکایات کے ازالے کیلئے ملاقات کرنا چاہتے ہوں۔

کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا

وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں اس بات کو بھی مسترد کیا ہے کہ وفاقی وزیر نے وفد کے مطالبات تسلیم کیے ہیں بلکہ وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا تھا کہ ان کے پاس ذاتی حیثیت میں پاکستان کی شہریت کالعدم کرنے اختیار نہیں ہے اور نہ ہی فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے شناختی کارڈ بلاک یا معطل کرنے پر غور کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ 'اس لیے عدالت کو انکوئری کمیشن کی رپورٹ میں منفی ریمارکس کو حذف کرنا چاہیے'، ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ قومی جنگ ہے، جس کیلئے ریاست کے تمام اداروں میں یکجہتی کی ضرورت ہے۔

28 اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے جی سکس میں قائم ہاکی گراؤنڈ میں اہل سنت والجماعت کی ریلی کے حوالے سے وزارت داخلہ کے جواب میں وضاحت کی گئی کہ اس قسم کی ریلیز اور عوامی اجتماعات کیلئے اجازت آئی سی ٹی کی انتظامیہ (اسلام آباد کیپٹل اتھارٹی) دیتی ہے یہ وزارت داخلہ کا معاملہ نہیں ہے۔

تحقیقات کے دوران چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ نا تو اہل سنت والجماعت نے اس ریلی کیلئے این او سی کے حصول کیلئے درخواست دی تھی اور نا ہی انہیں این او سی جاری کیا گیا تھا، جبکہ ایک مقامی مذہبی رہنما مولانا محمد طیب حیدری کی ریلی کیلئے این او سی جاری کیا گیا تھا، اس ریلی کا مقصد کشمیر اور فلسطین کے شہدا کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔

چیف کمشنر نے نشاندہی کی کہ مولانا طیب حیدری نے ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ این او سی کے حوالے سے تمام شرائط و ضوابط کو پورا کریں گے۔

2010 سے ہر سال دفاع پاکستان و استحکام پاکستان کے نام سے اسلام آباد میں کانفرنسز منعقد ہورہی ہیں، جس کی اجازت اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے دی جاتی ہے۔

کوئٹہ میں ہونے والے خود کش دھماکوں کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ قومی سانحات ہیں اور ان کی مذمت کیلئے الفاظ ناکافی ہیں، وزارت داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ کوئی علیحدہ کارروائی نہیں ہے کیونکہ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر میں دہشت گردی کی لہر جاری تھی۔

ضابطے کی 'خامیاں'

وزارت داخلہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کمیشن نے قانون کے طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کیا اور اپنی کارروائی کے دوران قانون کے مطابق سمن جاری کرنے کے بجائے قانون کے برعکس طریقہ کار اختیار کیا۔

کمیشن نے کسی عمل کے بغیر ذمہ داری عائد کی اور وزارت داخلہ یا اس کے وزیر کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔

کمیشن نے تحقیقات اور اعتراض کے حوالے سے کسی قسم کا شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا اور آئین کے آرٹیکل 4، 10 اے اور 25 کی حدود اور دیگر کو بھی مد نظر نہیں رکھا۔

اس کے علاوہ نہ ہی قانون کے مطابق عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیے گئے۔

وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا کہ اس قسم کے مشاہدے منظور کرتے وقت کمشین نے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی رپورٹس، اور ایسے دعوؤں پر انحصار کیا جو ثبوت کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں، یوں کمیشن کی رپورٹ ان کے دائرکار سے باہر ہے۔

وزارت داخلہ کے جواب میں زور دیا گیا کہ ریاست کا ہر ادارہ اور ہر ذمہ دار عہدیدار، جس میں فوج، وزارت داخلہ اور وزیر بھی شامل ہیں، امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مل کر کام کررہے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ملک بھر میں 7522 انٹیلی جنس آپریشن کیلئے گئے۔

اس کے علاوہ وفاق اور صوبوں نے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو امداد کیلئے مجموعی طور پر 4.6 ارب روپے ادا کیے جبکہ وفاق کے زیر انتظام علاقوں (فاٹا) میں 1.06 ارب روپے تقسیم کیے گئے۔

مدرسہ اصلاحات

مدارس کے حوالے سے وزارت داخلہ کے جواب میں کہا گیا کہ الیکٹرونک رجسٹریشن کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کی مدد سے مدارس کی میپنگ یا نقشوں پر نشاندہی کا کام مکمل کیا جارہا ہے۔

پنجاب اور اسلام آباد نے اس حوالے سے کام 100 فیصد مکمل کرلیا ہے جبکہ دیگر صوبوں اور اس کے ساتھ فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں یہ کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔

اس وقت مدارس صوبائی حکومتوں کے پاس رجسٹر ہیں۔

دوسری جانب مدارس کی اصلاحات اور ان کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر وزارت داخلہ، قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا)، وزارت مذہبی امور، مدارس کی وفاقی تعلیمی انتظامیہ خاص طور پر اتحاد تنظیم المدارس سے بات چیت کیلئے مستقل اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں۔

یہ رپورٹ 4 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

زیدی Feb 04, 2017 10:43am
وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے والے افراد کی تفصیلات حاصل نہیں کی جاتی ہیں کوئی ہے جو یہ بات مانے !