سندھ میں سنگ تراشی کا ہنر اور اس کی تاریخ

سندھ میں سنگ تراشی کا ہنر اور اس کی تاریخ

ابوبکر شیخ

میں نہ مصر کے اُن بازاروں میں گیا ہوں جہاں کی گلیاں، گلیوں کے درد، لباس اور چہرے سندھ جیسے ہیں، اور نہ کبھی مجھے اصفہان کے اُن خوبصورت بازاروں اور گلیوں میں جانے کا موقع ملا جہاں ہتھوڑی کی نازک چوٹ سے پتھروں پر کیفیتوں کے بیل بوٹے اُبھر آتے ہیں اور نہ ہی میں اُس زمانے میں پیدا ہوا جب ٹیکسلا میں تخلیق ہوتے ہوئے گندھارا آرٹ پنپ کر جوان ہو رہا تھا۔

آنکھوں، اُنگلیوں، پتھر، ہتھوڑی اور چوٹ کی دوستی کب ہوئی؟ اگر ہم اس سوال کی تلاش میں نکل پڑیں تو لاکھوں برسوں کے شب و روز کی پگڈنڈیاں ہمارے راستے میں آئیں گی۔ اس دھرتی جتنے ہی وسیع اس فن کی وسعتوں میں کھونے سے بہتر ہے کہ اپنے آنگن میں ہی اس فن و ہنر کی آمد تلاش کریں۔

وادئ سندھ کی تہذیب میں پتھر کے بُت فقط موہن جو دڑو سے کھُدائی کے دوران ملے ہیں، جن کی تعداد سولہ کہ قریب ہے۔ یہ بات ’الیگزینڈرا آرڈیلینو‘ نے اپنے تحقیقی مقالے میں کی ہے وہ اس حوالے سے آگے تحریر کرتے ہیں،’’سندھو تہذیب کی مورتیاں اپنے آپ میں کمال فن کی جھلکیاں دکھلاتی ہیں، ان میں لاجواب خوبصورتی کی انتہا ہے۔

خاص کر پروہت والا مجسمہ اور یہاں سے بیلوں کی ہزاروں چھوٹی بڑی مورتیاں ملی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ’سنگھار سماج‘ (مویشیوں کی پرورش کرنے والا اور ان کو محترم سمجھنے والا معاشرہ) تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مورتیاں ایک مذہبی فرقے کا پتہ دیتی ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔‘‘

1300 سے 500 قبل مسیح تک مٹی سے بنی اینٹوں اور لکڑیوں سے عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں اور یقیناً ان کو دوام نہیں تھا۔ اشوک کے زمانے میں فنِ تعمیر کو ایک نئی جہت ملی اور سنگتراشی کا فن اپنے کمال کو پہنچا۔ ہم اگر ایک سرسری جائزہ لیں تو ہڑپہ اور موہن جو دڑو کی تہذیب سے لے کر 12 ویں صدی کے آخر تک فن تعمیر کی پانچ ہزار برسوں کی شاندار تاریخ ہمارے سامنے کسی گلستان کے رنگوں کی طرح بکھری پڑی ہے۔

فنِ تعمیر کے اس گلستان کو سب سے زیادہ وسعت اور رنگ عطا کرنے میں سمندر کے کناروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان ہی کناروں پر بندرگاہیں بنی اور ان ہی بندرگاہوں کی بدولت دوسرے علاقوں اور ملکوں کی تحقیق، علوم اور فنون لطیفہ کے شیرینیاں اور لطافتیں ہمارے دل و دماغ تک پہنچیں اور ہمارے ذہن نئے علوم کی روشنیوں اور رونقوں سے منور ہوئے۔

علم، ادب، فلسفہ، مذہب اور دیگر علوم کا ذکر کسی اور نشست میں کریں گے، آج فقط اُن بے جان پیلے پتھروں کا ذکر کرتے ہیں جن پر جب ماہر اُستادوں کی چھینی اور ہتھوڑی کی مار پڑی تو ان پتھروں پر کیفیتوں کی نہ جانے کتنی خوبصورتیاں ساکن ہو گئیں۔ فن میں نفاست اور نزاکت کی حد یہ کہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہوا کا جھونکا لگے گا اور پتھر پر بنا پھول جھُوم اُٹھے گا اور اس کی خُوشبو چہارسو بکھر جائے گی۔

اس سنگتراشی نے جہاں محلوں اور مسجدوں کو خوبصورتی اور راحت بخشی تو مقبروں اور قبروں کو بھی اپنی نفاست اور تقدس کے رنگوں میں رنگ ڈالا۔

جامع مسجد ٹھٹھہ — تصویر ابوبکر شیخ
جامع مسجد ٹھٹھہ — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پرموجود سنگتراشی کے نمونے — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پرموجود سنگتراشی کے نمونے — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پر موجود سنگتراشی کے نمونے— تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پر موجود سنگتراشی کے نمونے— تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پر موجود سنگتراشی کے نمونے — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پر موجود سنگتراشی کے نمونے — تصویر ابوبکر شیخ

آپ اگر کراچی سے ننگر ٹھٹھہ کی طرف نکل پڑیں اور پھر ٹھٹھہ سے حیدرآباد کی طرف یا مکلی سے پیر پٹُھو کی طرف چلے جائیں تو ان راستوں پر مقبروں، مسجدوں، خانقاہوں اور قبرستانوں کی صورت میں آپ کو سنگتراشی کی آباد کائناتیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

مگر یہاں کچھ لمحے ٹھہرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ بات ہماری ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان سارے قبرستانوں اور تاریخی عمارات کو ایک زمانے یا ایک دور کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ جہاں سنگتراشی کے مُوڈ اور منظر بدلتے ہیں وہاں زمانے اور حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سنگتراشی کا ردھم بدلتا ہی تب ہے جب معروضی حالتیں بدلتی ہیں۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کیا خوب تحریر کیا ہے کہ ’’سندھ، ہندوستان کا وہ حصہ ہے جہاں انسانی تہذیب نے سب سے پہلے آنکھ کھولی، جیسا کہ سندھ میں بُدھ مت، جین مت اور برہمنوں کے اثرات موجود تھے، اس لیے ان سب کا اثر اسلامی فنِ تعمیر پر بھی ہوا۔ اگر ہم مسجدوں کی تعمیر کو دیکھیں تو تُرکی، ایران، مصر اور ہند کی تعمیر کا اثر ہمیں نظر آئے گا۔‘‘

ہمیں ان تاریخی مقامات میں جو سنگتراشی نظر آتی ہے، وہ اپنے زمانوں کے حالات، واقعات، حقائق اور کیفیتوں کا مظہر ہے اور یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ یہ سارے مقامات اپنی الگ الگ حیثیت اور حقیقت رکھتے ہیں، اس لیے سنگتراشی کی اس دنیا کو ہمیں تین مختلف تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کے حقیقی پس منظر میں دیکھ کر ہی ان کی خوبصورتی میں اور اضافہ ہو جائے۔

اگر ہم مکلی کی تعمیرات کا ذکر کرتے ہیں تو سارے محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ فنِ تعمیر سمہ دور میں یہاں پہنچا اور اس فنِ تعمیر پر گجرات کی عمارت سازی کا مکمل اثر نظر آتا ہے۔ سندھ میں سمہ دور فنِ تعمیر کے لیے ایک انتہائی شاندار دور ثابت ہوا۔ مکلی اور ٹھٹھہ میں زیادہ تر تعمیرات اس دور کی یادگار ہیں۔ خاص کر ’جام نظام الدین عرف جام نندو‘ کا عظیم الشان مقبرہ۔

مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پرسنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پرسنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ

مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ
مکلی کے مقام پر سنگتراشی کے شاہکار نمونے — تصویر ابوبکر شیخ

ڈاکٹر احمد حسن دانی اس نامکمل مقبرے کے متعلق اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ’’یہ ایک یادگار اور خوبصورت ترین سنگتراشی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں قدیم جین، گجراتی فن تعمیر، مقامی لوگوں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور اسلامی فن تعمیر کے امتزاج کا ایک ایسا شاندار شاہکار ہے جو مکلی پر بنی ساری عمارات سے مختلف، انوکھا اور خوبصورت ہے۔

سامنے والی دیوار پر پرندوں کی قطار، سورج مُکھی اور کنول کے پھولوں کی قطار، انتہائی خوبصورت خط میں قرآن شریف کی آیات اور پھر بالکل نیچے پھولوں کی قطار جس کے ہر پھول کی بناوٹ دوسرے پھول سے الگ ہے۔

مقبرے کے اندر کا کام بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے، یہ تعمیر 1509 کی ہے۔ یہاں جو سنگتراشی کا کام ہے وہ بھی اتنے اعلیٰ معیار کا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے یہ کام پہلے لکڑی یا عاج پر کیا گیا ہے جسے بعد میں ان پیلے پتھروں پر منتقل کیا گیا ہے۔ ہم جب گجراتی فنِ تعمیر کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو قدیم جین اور ہندی کاریگروں کی مہارت کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ مقبرہ سندھی کاریگروں کی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اس مقبرے کے تعمیراتی کام نے گمشدہ فن کے خزانوں سے پردہ اُٹھایا ہے جو اسلام سے پہلے یہاں جوان ہوا ہوگا۔‘‘

جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ
جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ

جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ
جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ

جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ
جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ

جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ
جنگشاہی کے قبرستان میں موجود فن سنگتراشی — تصویر ابوبکر شیخ

سمہ دور کی سنگتراشی ہمیں ’پیر پٹھو وادی‘ میں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے، جہاں کے قدیم قبرستان صدیوں سے اپنے آنگن میں ان پھول پتیوں اور جنگ کے تراشیدہ مناظر کو بڑی ایمانداری سے سنبھالے ہوئے ہیں۔

مکلی میں سمہ دور کے علاوہ ارغون، ترخان اور مغل دور کی سنگتراشی کے کئی تراشیدہ مناظر اور خطاطی کے کئی روح میں اُتر جانے والے خط ہیں جن کو دیکھ کر اُن فنکاروں کی اس فن سے محبت اور محنت کو داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔

کہتے ہیں کہ یہاں محمد عالم ٹھٹھوی نامی ایک کاتب تھے، جن کے ہاتھ کاٹ دیے گئے تھے مگر کتابت سے عشق اس حد تک تھا کہ قلم کلائی سے باندھ کر اُس نے ’دیوان حزین‘ کے سوا ’قرآن شریف‘ کے کئی نسخوں کی کتابت کر دی۔ میر علی شیر قانع لکھتے ہیں، ’میں نے اپنی آنکھوں سے ’دیوان حزین‘ کا قلمی نسخہ دیکھا تھا جسے محمد عالم نے نقل کیا تھا اور آخر میں محمد عالم کی دستخط سے یہ جملہ تحریر تھا ’محمد عالم نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے نقل کیا۔‘‘

پیر پٹھو کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
پیر پٹھو کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

پیر پٹھو کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
پیر پٹھو کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

پلیجا قبرستان، جھرک — تصویر ابوبکر شیخ
پلیجا قبرستان، جھرک — تصویر ابوبکر شیخ

پلیجا قبرستان، جھرک — تصویر ابوبکر شیخ
پلیجا قبرستان، جھرک — تصویر ابوبکر شیخ

آپ اگر دریا خان کی آخری آرامگاہ کی چار دیواری سے تین سو فٹ مغرب کی طرف جائیں تو وہاں بلوچوں کی چند قبریں ہیں۔ یہ قبریں سنگتراشی کی ایک اور تاریخی کہانی بیان کرتی ہیں، جن کو ہم چوکنڈی طرز کی قبریں کہتے ہیں۔ اس طرز کی قبروں کے کئی قبرستان ہیں جو سندھ کی اس ساحلی پٹی سے لے کر بلوچستان تک دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان قبروں پر جس انداز میں نازک و نفیس سنگتراشی کا کام کیا گیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

محقق گل حسن کلمتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،’’ان قبروں کو تراشنے والا یہ فن روم کا ہے، یہ فن کلمتی بلوچ ایران سے اپنے ساتھ لے کر آئے اور اس طرح سندھ اور بلوچستان میں ایسی قبروں اور اس طرز کی سنگتراشی کی بنیاد پڑی، چوکنڈی طرز کی یہ قبریں گیارہ سے 16ویں صدی تک کی ہیں، اس طرز کی قبروں کو ’رومی‘ بھی کہا جاتا ہے اور بلوچ اسے ’تومبس‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘

سلمان رشید ان وسیع اور خوبصورت قبرستانوں کے متعلق تحریر کرتے ہیں، ’’ہم اگر سرسری طور پر ایک اندازہ لگائیں تو سندھ اور بلوچستان میں مکلی، سونڈا، جھرک، راج ملک، شاہ کپور، چوکنڈی، میمن گوٹھ اور تونگ جیسے ایک سو سے بھی زائد قبرستان ہیں۔

چوکنڈی طرز کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی طرز کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی طرز کے مقبرے — تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی طرز کے مقبرے — تصویر ابوبکر شیخ

چوکنڈی طرز کی قبریں  — تصویر ابوبکر شیخ
چوکنڈی طرز کی قبریں — تصویر ابوبکر شیخ

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ، کلمتی، جوکھیا اور نومڑیا (برفت)، مغلوں کے زمانہ میں طاقتور قبیلے تھے، ان قبیلوں کا ذکر ہمیں سمہ دور میں بھی ملتا ہے۔ یہ اکثر مغلوں سے لڑتے اور گزرتے ہوئے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے۔ اگر کلہوڑا دور پر نظر ڈالی جائے تو، گبول، لاشاری، پنہور، جاکھرا بھی ان کے مددگار رہے۔ ان قبائل کی یادگار قبریں اور قبرستان ہیں جو اس حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

اب سنگتراشی کی تیسری تاریخی حقیقت جاننے کے لیے ہم سونڈا کے قبرستان چلتے ہیں۔ جہاں بہت سارے راز ہیں جو اس قبرستان میں گڑے ستونوں کی بنیادوں میں پوشیدہ ہیں۔ یہ ستونوں والی قبریں اب تک محققین کے لیے ایک راز ہی ہیں۔ قبروں پر پیلے پتھر کے گڑے ستونوں پر جنگ کے مختلف مناظر کنندہ ہیں۔

ہر ایک ستون کی اپنی کہانی ہے۔ قبر کی سنگتراشی اور بناوٹ آپ کو بتا دے گی کہ یہ قبر آیا کسی سردار کی ہے، کسی عورت کی ہے یا پھر کسی جنگجو کی ہے۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’قبرستان میں پتھر کی بنی ہوئی کچھ قبروں کے دائیں طرف نچلی طرف گھڑسواروں کی تصویریں بھی تراشی گئی ہیں، جن کے ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں نیزہ ہے۔

کچھ قبروں پر دستار کی شبیہ تراشی گئی ہے جس بارے میں خیال ہے کہ یہ سرداروں کی قبروں کی نشانیاں ہیں۔ عورتوں کی قبروں کی پہچان کے لیے تاڑ کی ڈالیوں کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ وہ قبریں جن پر سات فٹ اونچے پتھر کے ستون گاڑ دیے گئے ہیں وہ قبریں شہیدوں کی ہیں۔‘‘

سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

ٹھٹھہ شہر کے رہنے والے آرکیولاجی کے ماہر اور محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے اس حوالے سے کہا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک قدیم قبرستان ہے، یہاں ہمیں تین ادوار کی قبریں ملتی ہیں جن میں خاص کر وہ ستونوں والی قبریں ہیں جن کی قدامت جاننے کے لیے ہمیں کافی تحقیق درکار ہے جس کے بعد جا کر کچھ حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد سمہ دور کی قبریں ہیں، یقیناً اس صدیوں پرانے قبرستان میں سنگتراشی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھںی چاہیے کہ یہ کسی ایک مخصوص ذات یا قبیلے کا قبرستان نہیں ہے۔

یہاں ارد گرد جو بھی قومیں اور قبائل آباد ہیں اُن سب کی قبریں یہاں ہیں۔ یہاں جنگوں میں مرنے والے مرد اور عورتوں، سرداروں کی قبریں ہیں اور دیگر عام لوگوں کی بھی قبریں ہیں۔" ان ستونوں والی قبروں کے متعلق محمد علی مانجھی صاحب کا یہ تشنگی سے بھرا ایک اچھا جواب تھا۔

سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ
سونڈا کا قبرستان — تصویر ابوبکر شیخ

17 ویں صدی میں قبرستانوں پر سنگتراشی کا یہ فن بڑی تیزی سے پھلا پھولا۔ پتھروں پر گھڑسواروں اور جنگ کے مناظر تراشنے کا رواج پڑا اور دیگر چیزوں کی تصویریں بننا شروع ہوئیں۔ اس چیز کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ، قبر کی پہچان صدیوں تک قائم رہ سکے۔ سمہ سردار اس فن کو گجرات سے لائے، ارغونوں اور ترخانوں نے اس فن کو قدردانی کا پانی دیا اور یوں یہ فن اپنے عروج کو پہنچا۔ مکلی اس فن کا ایک رنگین گلستان ہے جہاں ہمیں پانچ ادوار کی سنگتراشی کا فن دیکھنے کو ملتا ہے۔

مگر پھر وہ ہی ہوا جو ہر کمال کے ساتھ ہوتا ہے۔ 18 ویں صدی کی آخر میں یہ فن اپنے کمال کے زوال کی آخری سانسیں لینے لگا۔ اسباب بہت سارے ہو سکتے ہیں مگر حرف آخر یہ کہ اس فن پر زوال کی شام آ گئی۔

مگر ہم جب ماضی کے ان مزاروں کو دیکھنے جاتے ہیں تو ہمیں اُن گزرے زمانوں کا احسان مند ہونا چاہیے جنہوں نے ہماری جھولی میں یہ لازوال خوبصورتیاں عنایت کی ہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔