اسلام آباد: حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو چیلنج کرے گی جس کے مطابق عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نجی وکیل مقرر کرنے سے روک دیا ہے۔

عدالتی حکم سے مایوس حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حکم کے باعث اسے قانون اور آئین کے تحت کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی عیسیٰ کی جانب سے نجی وکیل مقرر کرنے کو غیر مناسب اقدام قرار دینے کے خلاف حکومت کی جائزہ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 'نجی وکیل کو مقرر کرنا مکمل طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسی کے دائر کار میں آتا ہے اور اس حوالے سے کوئی مداخلت اور حکم امتناعی جاری نہیں کیا جاسکتا'۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آفس نے پٹیشن دائر کی جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر جائزہ لینے اور عوامی معاملات کے مقدمات میں نجی وکیل مقرر کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہے۔

حکومت کو اس وقت شرمندگی اٹھانا پڑی تھی جب فیصلے کی روشنی میں انھیں دو اہم مقدمات کی پیروی سے سینئر وکیل مخدوم علی خان کو ہٹانا پڑا، جو وزارت داخلہ کے کوئٹہ کمیشن کیس اور سندھ حکومت کے وزیراعلی کے مشیر تعینات کرنے کے حوالے سے کیس کی پیری کررہے تھے۔

پٹیشن میں آئین اور قانون کی تشریح کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ یہ سپریم کورٹ پر واجب ہے کہ وہ کوئی فیصلہ سنانے سے قبل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کا موقف سن لیں۔

وفاق کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 100 اور 140، اور سینٹرل لاء آفسرز آرڈیننس 1970 اور ساتھ ہی ساتھ پروویژنل لاء افسرز سے متعلق قوانین کی غلط تشریح پیش کی گئی ہے۔

پٹیشن میں زور دیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 4 ٹو کے مطابق 'جن کو قانون میں ممنوع قرار نہیں دیا گیا ان افراد کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا یا ان کے کام میں مداخلت نہیں کی جاسکتی'۔

پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نجی وکیل کو مقرر کرنے کا معاملہ خصوصی طور پر لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1974 کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ فیصلے میں پیش کیے گئے نتائج تجارت اور کاروبار کو آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت حاصل آزادی کی نفی کرتا ہے۔

وفاقی حکومت کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کوئی تجرباتی ڈیٹا عدالت کے پاس موجود نہیں ہے جو تعطل کا شکار مقدمات، قانونی افسران اور ان کی خدمات کے معاوضے کے حوالے سے ہو، اس لیے فیصلے میں جن مشاہدوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ حقائق کی بنیاد پر نہیں ہیں۔

پٹیشن میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حکومت سب سے زیادہ مقدمات میں فریق ہے جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تعطل کا شکار مقدمات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ حکومت پر نجی وکیل مقرر کرنے کی پابندی ریاست کے امور کو چلانے میں مشکلات کا باعث ہوسکتی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ یہاں تک کہ ماضی میں حکومت قانونی رائے اور ٹرانزیکشنل کے کام کیلئے نجی وکلاء کو مقرر کرتی رہی ہے، پٹیشن میں زور دیا گیا کہ ہنگامی کام کے باعث یہ حکومت کیلئے فائد مند نہیں ہے کہ قانونی افسران کی بڑی تعداد میں بھرتیاں کی جائیں جو کہ وسائل کا مستقل زیاں ہوگا۔

اسی لیے نجی وکیل کو کام سے نہ روکا جائے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کی شرائط عائد کی جائیں۔

یہ رپورٹ 15 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں