کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جو غالب کو نہ جانے، اپنی مثال آپ جیسی شخصیت رکھنے والے اردو شاعر مرزا غالب کی آج 148ویں برسی منائی جارہی ہے۔

مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ بیگ تھا، وہ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے.

غالب اردو کے عظیم شاعر تھے، ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی میں ہی پنہاں نہیں، بلکہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور اسے بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن 8 سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا، 1810 میں 13 سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہٰی بخش خاں معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

غالب کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت سے نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے۔

ان کے کچھ مقبول اشعار یہ ہیں:


عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا انداز بیاں اور

آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور بالآخر پندرہ فروری 1869 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

اردو شاعری کو نئے رجحانات سے روشناس کرانے والے یہ شاعر اردو ادب میں ہمیشہ غالب رہیں گے۔

پاکستان میں 1969 میں غالب کی زندگی پر دستاویزی فلم بھی بنائی گئی جبکہ پاکستان میں غالب پر ڈرامہ بھی بنایا گیا جس میں قوی خان نے غالب کا کردارا دا کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں