پاکستانی مادری زبانوں کے ادبی میلے کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز 18 فروری سے اسلام آباد میں کیا جائے گا۔

دو روزہ فیسٹیول کا مقصد پاکستان کی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیسٹیول کی میزبانی انڈس کلچرل فورم، لوک ورثا، سٹرینتھننگ پارٹیسیپیٹری آرگنائزیشن (ایس پی او)، فاونڈیشن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ، سندھ حکومت کا محکمہ ثقافت اور دیگر ادارے کریں گے۔

اس ایونٹ کے پروگرام کا اعلان اداروں کے مالکان نے لوک ورثا میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا، اس فیسٹیول کو یونیسکو انٹرنیشنل مدر لینگوچ ڈے کے تعاون سے منعقد کیا جارہا ہے، جو 21 فروری کو منایا جاتا ہے۔

اس تقریب میں پاکستان بھر سے 15 سے زائد زبانوں میں کام کرنے والے 150 سے زائد مصنف، تجزیہ کار، شاعر اور فنکار شامل ہوں گے، جو پاکستان کی زبانوں کے تاریخی نقطہ نظر پر بات کریں گے۔

اس دوران زبان، ادب اور ثقافت کے حوالے سے بات کی جائے گی، جبکہ بک لانچ، شاعری، میوزیکل ایونٹس، اسکریننگ، پرفارمنسز، بک اسٹالز، فوڈ کورٹ، ثقافتی نمائش اور موبائل لائبریریز بھی اس فیسٹیول کا حصہ ہوں گی، فیسٹیول میں موجود کتابیں سندھی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں موجود ہوں گی جن کے اردو اور انگریزی زبان میں ترجمے بھی دستیاب ہوں گے۔

پریس کانفرنس میں انڈس کلچرل فورم کے چیئرمین نیاز ندیم کا کہنا تھا کہ اس سال اس فیسٹیول میں مزید بہتری کی توقع ہے۔

ایس پی او کے چیف ایگزیکیٹو نصیر میمن کے مطابق فیسٹیول کا مقصد پاکستان کی مختلف زبانوں اور ثقافت کو پروموٹ کرنا ہے۔

لوک ورثا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ یہ فیسٹیول ان کے ادارے کا سب سے اہم ایونٹ ہے، یہ لوگوں کو مختلف زبانوں کے مصنفوں سے بات چیت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Feb 17, 2017 07:08pm
سبحان اللہ، ہمیں اس قسم کے میلوں کی بہت ضرورت ہے۔ انہیں مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد کیا جانا چاہیے۔ میں مزید یہ کہوں گا کہ ان زبانوں مٰیں لکھی گئی کتابوں کو حکومتی لائبریریوں کو خریدنا چاہیے۔ یہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور اب بھی ڈان کی وساطت سے دوبارہ کہوں گا کہ پاکستان کی تمام علاقوں کے سرکاری کتب خانوں میں اس علاقے کی زبان کے مصنفین اور ترجمہ نگاروں کو بھرتی کرنا چاہیے۔ زیادہ نہیں ایک ایک بھی ہو تو بہت ہے؛ پھر ان کی نوکری کا دارومدار ان کی کارکردگی پر ہونا چاہیے۔