'صوفیوں کی زمین معصوموں کے خون سے لت پت'

اپ ڈیٹ 17 فروری 2017
مزار پر دھماکا دھمال کے دوران ہوا — فوٹو/ اے ایف پی
مزار پر دھماکا دھمال کے دوران ہوا — فوٹو/ اے ایف پی

پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف شہروں اور مقامات پر دہشت گردی کے کئی واقعات پیش آئے اور سب سے زیادہ خونی حملہ گزشتہ روز سہیون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ایک خودکش حملہ آور نے کیا جس میں 80 افراد جاں بحق ہوئے۔

مزار پر دھمال کے دوران اس ہولناک حملے میں کم و بیش 200 افراد زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: سیہون دھماکا: ہلاکتیں 80 ہوگئیں، سوگ کا سماں

اس سانحے کے بعد لوگوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کا سہارا لیا اور وہاں کھل پر دکھ اور غصے کا اظہار کیا۔


فیہا جمشید نامی خاتون نے لکھا کہ صوفیوں کی تعلیمات پیار اور امن کا خلاصہ ہیں، ان کے مزارات سے ڈر لگ رہا ہے؟ یا اس محبت سے خطرہ ہے جو یہ لوگوں کے دلوں میں روشن کررہے ہیں؟

ایک ٹوئٹر صارف نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا: 'سنی، شیعہ، ہندو ہر مذہب فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد سیہون آتے ہیں، یہ ہماری شناخت اور ثقافت پر حملہ ہے'۔

صحافی فیضان لاکھانی کا کہنا تھا کہ وہ مقامات جہاں امن اور ہم آہنگی کی ترویج ہوتی ہے دہشت گرد وہاں حملہ کررہے ہیں۔

رمیز نام کے ایک صارف نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا اور لکھا کہ 'میرا پورا جسم کانپ رہا ہے، صوفیوں کی زمین معصوموں کے خون سے لت پت ہے، کبھی نہیں سوچا تھا کہ سیہون میں حملہ ہوگا'۔

گلوکار شہزاد رائے نے ریاستی نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ ریاست اسلحے، گاڑیوں، انٹری ایگزٹ پوائنٹس کو ریگولیٹ نہیں کررہی۔

صحافی امر گرڑو نے صوتحال پر تبصرہ کیا گیا کہ سیہون میں ایک بھی ایمبولینس موجود نہیں تھی۔ انہوں نے عینی شاہدین کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ لال شہباز قلندر پر ہونے والے حملے کے زخمیوں کو رکشہ اور موٹو سائیکلوں پر ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک ٹوئٹر صارف نے ابتر صورتحال پر صوبائی حکومت پر تنقید کی اور لکھا کہ ہسپتالوں میں عملہ، بستر اور ادویات دستیاب نہیں، آپریشن تھیٹر بھی کام نہیں کررہا، 'لیکن فکر نہیں کرو بھٹو زندہ ہے'۔

فریال نامی ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک دھماکے سے دوسرے کے درمیان کی مدت کو امن کہتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Feb 17, 2017 07:23pm
100 %