ہمارے ایک استاد کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کی ایک ادبی اور غیر سیاسی تنظیم کے فورم پر دورانِ لیکچر بات سے بات نکلی تو انہوں نے بتایا کہ کسی روز ان کی بیگم سے محترم کی چپقلش ہوگئی اور پھر غصہ میں آکر انہوں نے اپنی والدہ سے کہا اسے لے جائیں یہاں سے۔

والدہ لے گئیں۔

جب گهنٹے ڈیڑھ کے بعد ان کا غصہ قابو ہوا تو اب انہوں نے کہا کہ بهئی کیا کیا جائے، بیگم کے بغیر دل نہیں لگتا تو انہوں نے ذرا ہمت کر کے انہیں منانا چاہا، لیکن بقول ان کے ان کی "مردانگی" کا عنصر اجاگر ہوگیا اور پهر قدم دہلیز پر جم گئے۔

مرد کی غیرت کا تو یہی تقاضہ ہے کہ عورت ذات اسے منانے، اس سے معافی مانگنے، اس کے پاوں رگڑنے اور اس کے غیض و غضب کا بار برداشت کرنے کو اپنا فرض سمجهے، یہی تو "غیرت" ہے. اس سوچ کے جنم لینے کے بعد انہوں نے خود سے کہا کہ بهئی جس کو تم غیرت سمجهتے ہو کیا وہی تو "بے غیرتی" نہیں؟

درحقیقت یہی ہے۔

لیکن عمومی طور پر عورت بڑی بے غیرت سی چیز ہے جس کو روڈ رستوں پر گزر رہے ہر شخص کی غیرت کی آنکه بڑے غور سے مشاہداتی حد تک تک رہی ہوتی ہے کہ کب یہ کچه کرے تو ہم غیرت اور حمیت سے سرشار اپنے آتش فشاں پہاڑ کو جوش دیں اور اپنی انا، تکبر اور مردانہ بے حسی کا لاوا اس راہ چل رہی کمزور صنفِ نازک پر انڈیل دیں۔

یہ نفسیات کیا ہے؟ ایک مرد اگر عورت پر خود کو برتر سمجهتا ہے تو کیوں ہے؟ وہ راہ چل رہی لڑکی کو اشارہ کردے، چهیڑ دے یا ہراساں کرتے ہوئے مسکراہٹ یا ہنسی اڑاتا ہوا پاس سے گزرتا ہے تو اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟ کیوں تحقیر کے لیے زنانہ اصلاحات اور تعظیم کے لیے مردانہ اصلاحات استعمال کیں جاتی ہیں؟

پڑھیے: عورت کے 'ناقص العقل' ہونے کی بحث

یہ سوالات چبهتے ہوئے ضرور ہیں، مگر حقیقت ہیں۔ معاشرہ عورت کے مقام کا تعین کیسے کر رہا ہے؟ اس کو اپنی بائیولوجیکل خدوخال کے اعتبار سے کیا کام کرنے ہیں کیا نہیں؟ عورت کو سیکورٹی دینے کے نام پر پابندیاں مرد کے بجائے عورت پر ہی کیوں لگائی جاتی ہیں؟

ویسے بات وزن دار ہے عورت اور سیکورٹی کے تناظر میں ایک جملہ خاصہ مقبول ہے کہ معاشرہ خراب ہے اور وحشی ہے یا پهر لوگ نظروں سے کها جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پهر سوال یہ نکلتا ہے کہ یہ معاشرہ عورت کے لیے خطرناک ہے تو مرد کے لیے کیوں نہیں؟

اصل خطرہ پهر وہ مردانہ سوچ ہوئی جو عورت کو ہیچ بناتی ہے۔ جامعہ کراچی میں ہی ایک سیمینار کے دوران نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ رضا نے جنسی تفریق پر بات کرتے ہوئے یہ سوالات اٹهائے کہ جنس کا تعین کون کرتا ہے؟ یعنی کہ ایک عورت کو کس طرح اور کیا کرنا چاہیے، یہ فیصلہ کیا خود عورت نہیں کرے گی؟ تو یقین جانیے کہ ایک سرسری سی گزر گئی کہ آخر آج تک ہم ایک عورت کو کیا سمجهتے رہے ہیں ؟ ایک چلتا پهرتا پرزہ یا کوئی دل بہلانے والی مشین؟

ہندوستان میں دهرتی ماں یا سندهو ماں جیسے القابات عورت ذات کے معاشرے پر پڑ رہے اثر کو واضح کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ستی کی رسم اور کاروکاری کا عذاب عورت ذات کو ملعون قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ جہاں عورت دیوی بهی ہے اور ملعونہ بهی۔

اسی طرح عرب میں عورت ذات ہمیں تاریخ میں ہندہ جیسی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی پر اثر شخصیات کے روپ میں بهی ملیں گی اور زندہ درگور ہو رہی بچیوں کی صورت میں بهی. عورت کے استحصال میں جہاں ثقافت اور روایات کا حصہ رہا ہے وہیں مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے اسے زیر دست رکھا گیا ہے۔

مثلاً تمام حوالوں کا استعمال بس یہ ثابت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ عورت کا کام مرد کا خیال رکهنا ہے، اس کے کهانے، بستر، اور بچوں کی دیکه بهال کرنا ہے، جبکہ مرد کا کام عورت کی حفاظت کرنا ہے، کیوں کہ عورت ذات زمانے کی مشکلات برداشت نہیں کرسکتی۔ خدا نے اسے اتنی طاقت ہی نہیں دی اور نہ ہی ہمت دی ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستانی عورت کے لئے سات فیصلہ کن لمحات

اس موقف کو سامنے رکهتے ہوئے اگر بالعموم دیکهیں تو یہ مردانہ اور جنسی عصبیت کہ علاوہ کچه بهی نہیں کیوں کہ ایک کسان خاتون جو معاشرتی اعتبار سے نچلے درجے پر ہوتی ہے کیا وہ اپنے کهیت کے علاوہ گهر، بار، بچے، شوہر کا خیال نہیں رکهتی؟

کیا عورت سیاست نہیں کرسکتی؟ یا وہ خاتون جو نوکری کرتی ہے اس سے توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنی نوکری، بچوں کی پرورش، شوہر کی خدمت، سسرال کے طعنے اور گهریلو ذمہ داریاں سنبهالے؟ اگر ایک عورت یہ سب کر رہی ہے تو وہ "صنفِ نازک" کیسے ہوئی؟

کیا کوئی عام مرد اتنی ہمت رکهتا ہے؟ یہ محض اس کا کام نہیں بلکہ معاشرہ ان سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اگر ان کو اچهی ماں، بہو، بیٹی، بیگم یا بہن بننا ہے تو اس پر یہ ذمہ داریاں نبهانی ہیں ورنہ وہ ایک 'بے غیرت' عورت ہے۔

تصور کیجیے کہ جس ملک میں ہر سال 500 خواتین غیرت کی بهینٹ چڑھ جاتی ہیں، اس معاشرے میں اور اس معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تها کیا فرق ہے؟ کیا وہ غیرت کے نام پر قتل نہیں تها؟

یہاں حیض پر گفتگو کرنے والی عورت فحش ہے مگر ارد گرد "مردانہ کمزوری" کے سائن بورڈ لگانے والے فحش نہیں۔ یہاں نوکری پر جا رہی، کالج یونیورسٹی جا رہی کوئی راہ چلتی خاتون کسی سے بات کرلے تو ہر دوسرے بندے کی رائے میں ایک بد چلن انسان ہے، پر اگر یہی کام کوئی مرد کر لے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔

اس تناظر میں دیکها جائے تو عورت واقعی ایک بے غیرت مخلوق ہے جس کے وجود سے مردوں کی مردانگی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ تبهی تو کبهی اسے سر سے پاوں کی ایڑی تک کالے کپڑے میں لپیٹ دیا جاتا ہے، تو کبھی حساس طبع مردوں کو عورت ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ عورت کو ایک شے سمجهنے والے غیرت مند معاشرہ ہی تو باسی ہیں جو ہر سال سینکڑوں 'بے غیرت' عورتوں کو 'غیرت' کی بهینٹ چڑهاتے ہیں۔

اب بس سانس کھینچنا باقی ہے وہ بھی کبھی نہ کبھی کھینچ لیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Saba Qayoom Leghari Feb 20, 2017 08:44pm
I agree 101% with this, man is given dominance (from Islamic point of view) in order to take care of women instead of exploiting her being. This dominance is a kind of exam for men but most of them just take it for granted.
Rahmat ali tunio Feb 20, 2017 10:16pm
It's all about patriarchal system. The system we live in supports the male-mindset. Male dominated society deals women as a commodity. Women are being used as a business in many parts of country, they are being alleged Karo-Kari, afterwards they sell those woman to the other party by getting money, or they kill them. We have experienced it as a part of society. If you read newspaper or watch News channels you will come to know the many of the News are related to the women. The problems they face in daily life whether they are in the home or outside it at schools, Universities or workplaces. The zombies can not afford them to live as equal to men. They label them by the words I cant write here. So, we need the system, where the value given to women equally. Waqas you wrote very well on the topic, we need to focus on.