اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے فوجی عدالتوں کی بحالی کے معاملے پر اسلام آباد میں 4 مارچ کو کثیر جماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے، جس میں تمام جماعتوں کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں سے رابطے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

پی پی پی کے ایک وفد نے نئے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری کی سربراہی میں راولپنڈی کی لال حویلی کا دورہ کیا اور عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے چیف شیخ رشید احمد کو کثیر جماعتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔

بعد ازاں پی پی پی کے وفد نے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ اسراراللہ زہری اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے چیف حامد علی شاہ موصوی سے ملاقات کی اور انھیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے نیئر بخاری نے کہا کہ پی پی پی نے کثیر جماعتی کانفرنس کی پہل اس لیے کی ہے کیونکہ انسداد دہشت گردی کیلئے فوجی عدالتوں کی بحالی کے معاملے پر حکومت اتفاق رائے قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

انھوں نے فوجی عدالتوں کے گذشتہ دو سال کے قیام کے دوران اس میں توسیع کیلئے مشاورت کا آغاز نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں توسیع: پیپلز پارٹی کا اجلاس میں شرکت کا اعلان

ایک سوال کے جواب میں نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ پی پی پی کی قیادت کے اب تک کیے گئے فیصلے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جائے گی۔

تاہم پی پی پی حکومت کی اتحادی جماعتوں کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے سکتی ہے جن میں جمعیت علما اسلام (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی رہنما ممحمود خان اچکزئی بھی شامل ہیں۔

پی پی پی کے رہنما نے بتایا کہ اتوار کے روز لاہور میں پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ان کی ملاقات طے ہے جبکہ وہ پیر کے روز عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی سے ملاقات کریں گے۔

انھوں نے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کو فوجی عدالتوں کی بحالی کے حوالے سے منعقدہ پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کو ہمیشہ غیر جانبدار شخص تصور کیا جاتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ حکومت دوبارہ مذکورہ صورت حال کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے سے تیار کیے گئے 21 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے میں تبدیلی کی ہے۔

پی پی پی کے وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ رشید نے تجویز پیش کی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنا چاہیے جیسا کہ اس طرح کے اتحاد نے ماضی میں بہتر نتائج پیش کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے ممکنہ بائیکاٹ سے 'فوجی عدالتوں میں توسیع تعطل کاشکار'

خیال رہے کہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں دہشت گردی کے مقدمات کے تحت شہریوں کا ٹرائل کرنے کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

رواں سال جنوری میں دو سال کی منظور شدہ آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد فوجی عدالتوں نے عملی طور پر کام بند کردیا تھا۔

ابتدا میں اپوزیشن کے علاوہ حکومت کی اتحادی جماعتوں، جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نے فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی مخالفت کی تھی۔

تاہم ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت اور فوجی حلقوں کے دباؤ پر جماعتوں نے اصولی طور پر ان عدالتوں کی بحالی پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

تاہم حکومت کی جانب سے 17 فروری کو ڈرافٹ کیے گئے ترمیمی بل میں آئین کے آرٹیکل 175 تھری میں ترمیم کی تجویز پیش کیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ان جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں، جن میں پی پی پی، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) شامل ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے تجویز کیے گئے ترمیمی بل کو اس کی موجودہ حالت میں منظور نہیں کریں گی کیونکہ اس بل میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی تبدیلیاں جے یو آئی (ف) کے ایماء پر کی گئیں ہیں اور اس حوالے سے ان جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 175 تھری میں ترمیم کرنے کے فیصلے پر اعتراض بھی کیا گیا، جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کو ایسے تمام قیدیوں کے ٹرائل کا حق دیا گیا تھا 'جو کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم سے ہوں گے اور مذہب یا فرقے کے نام کا استعمال کریں گے'۔

نئے ڈرافٹ میں حکومت نے الفاظ 'مذہب اور فرقے کے نام کا استعمال' کرنے کے الفاظ نکال دیے ہیں جس نے سیاسی جماعتوں میں خوف پیدا کردیا ہے کہ یہ قانون ان کے خلاف 'سیاسی انتقام' کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ فوجی عدالتوں میں 3 سال کی توسیع کی حکومتی تجویز کو بھی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے ان کا ماننا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو ان عدالتوں میں 15 ماہ سے زائد کی توسیع نہیں دینی چاہیے۔

جمعے کو پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے انکشاف کیا تھا کہ ترمیمی بل کے مجوزہ مسودے میں ' ریاست کے خلاف بھیانک اور پرتشدد سرگرمیوں' کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اجلاس کے دوران حکومت نے مبینہ طور پر فوجی عدالتوں کو 3 سال کی بجائے دو سال کیلئے بحال کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

یاد رہے کہ پارلیمانی رہنماؤں کا آئندہ اجلاس منگل کو طے ہے۔

یہ رپورٹ 26 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں