پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں کی توسیع کی اس وقت تک حمایت نہیں کرے گے جب تک اس میں نئی شرائط کو شامل نہیں کیا جائے گا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ ماضی کے دو سالوں میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی کی روشنی میں ان کی توسیع نہیں ہونی چاہیئے'۔

انھوں نے کہا کہ 'اگر تمام اپوزیشن جماعتیں توسیع کے معاملے پر متفق ہوگئیں تو پھر بھی پیپلز پارٹی کے پاس کئی اور تجاویز بھی موجود ہیں تاکہ ان خدشات کا سدباب ہوسکے جو پیچھے دو سالوں میں دیکھنے میں آئے'۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک جتنے بھی اس طرح کے قوانین بنائے گئے وہ دہشت گردوں کے بجائے سیاستدانوں کے خلاف استعمال ہوئے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں سے متعلق اجلاس بے نتیجہ ختم

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 'وہ دن دور نہیں جب یہ قوانین ان لوگوں کے خلاف استعمال ہوں گے جو آج فوجی عدالتوں کے حق میں ہیں'۔

پی پی رہنما نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ سوچے اور سب کے ساتھ مشاورت کرے، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر منصفانہ ٹرائل اور انسانی حقوق سے متعلق اہم سوالات جنم لیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ہم اس حوالے سے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں ضرور شرکت کریں گے، لیکن ہمارا مؤقف یہی ہوگا کہ ان عدالتوں کی توسیع ہرگز نہیں ہونی چاہیئے۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی کا جمعہ کو ہونے والا اجلاس بے نتیجہ رہا اور کمیٹی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں متفق ہوں تو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال توسیع کی جاسکتی ہے۔

اجلاس میں حکومت نے نیا آئینی مسودہ بھی پیش کیا۔

وزیرقانون کے مطابق پارلیمانی رہنماؤں کو 23 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کے ساتھ ہی پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی ارسال کیا جائے گا۔

زاہد حامد کا کہنا تھاکہ تمام پارلیمانی رہنما 28 فروری کے اجلاس میں اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی رائے دیں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز ہی پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس حوالے سے حکومت کے ترمیمی بل کے منظور شدہ ڈرافٹ پر کسی بھی قسم کی غیر مشروط حمایت نہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں توسیع: پیپلز پارٹی کا اجلاس میں شرکت کا اعلان

یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

اس وقت حکومت نے قومی اتفاق رائے سے 2 سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی تاہم رواں سال 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کے دو سال مکمل ہونے کے بعد یہ عملی طور پر غیر موثر ہوگئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں