پشاور: پختونوں کی مبینہ غیر قانونی گرفتاریوں پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں صوبہ پنجاب پر نسلی اور لسانی سلوک روا رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

صوبائی قانون سازوں نے پختونوں کی گرفتاریوں پر صوبہ پنجاب پر نسلی اور لسانی امتیاز برتنے کا الزام لگاتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں منظور ہونے والی ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے پنجاب، سندھ، آزاد جموں اور کشمیر میں پختونوں کو ہراساں کیے جانے کی مزمت کی اور ان کی فوری رہائی کو مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن صاحبزادہ ثناء اللہ کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ 'یہ اسمبلی وفاقی حکومت سے کہتی ہے کہ وہ پنجاب، سندھ اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں کو پختونوں سے انتقام اور ان کی غیر قانونی حراست کو بند کرنے کیلئے کہے'۔

قرار داد کے مطابق 'خیبرپختونخوا کے عوام، جن میں تاجر اور مزدور شامل ہیں، پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم ہیں، بے روزگاری اور عسکریت پسندی نے انھیں اپنے صوبے سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے لیکن انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے'۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں پختونوں کے خلاف 'نسلی امتیاز' ایک سازش ہے جو ان میں ناراضگی پیدا کررہا ہے اور یہ مختلف نسلوں کے درمیان نفرت کا باعث بن سکتا ہے۔

قرار داد میں صوبائی حکومتوں پر گرفتار افراد کو فوری رہا کرنے اور انتقام کی پالیسی ترک کرنے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: پنجاب: ’پختونوں‘ کے ساتھ نسلی تعصب برتنے کی مذمت

اس قرار داد کی منظوری سے قبل صوبائی اسمبلی میں دیگر صوبوں اور خاص طور پر پنجاب میں پختونوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ امتیازی سلوک پر گرما گرم بحث ہوئی۔

اسپیکر اسد قیصر نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رکن اسمبلی سردار حسین کی جانب سے مذکورہ معاملے پر بحث کیلئے تحریک التوا پیش کرنے کی اجازت دی۔

بحث کے دوران اے این پی اور پی پی پی کے اراکین نے پنجاب حکومت کے خلاف تنقید کے نشتر برسائے۔

سردار حسین نے پنجاب حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر پنجاب حکومت نے پختونوں کے خلاف امتیازی سلوک بند نہ کیا تو پشاور، مردان اور چارسدہ کے عوام کو حق ہو گا کہ وہ بھی اپنے صوبے سے پنجابی بولنے والوں کو نکال دیں'۔

صوبہ پنجاب کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے انھوں نے الزام لگایا کہ خود کش دھماکوں کے ماسٹر مائینڈ اور دہشت گردوں کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن پولیس لاہور اور دیگر شہروں میں مقیم پختونوں کو نشانہ بنارہی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں 7 جبکہ ملتان میں دہشت گردوں کے 18 ٹھکانے ہیں۔

افغان سرحد بند کرنے کے فیصلے کے حوالے سے اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی نے کہا کہ یہ انتہائی ستم ظریفی ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی شیلنگ کے باوجود واہگہ بارڈر بند نہیں کیا جاتا لیکن حالیہ دہشت گردی کے حملے کے بعد افغان سرحد بند کردی گئی ہے۔

اپوزیشن رہنما مولانا لطف الرحمٰن نے پنجاب حکومت پر دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں پختونوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔

انھوں نے ایک تجویز پیش کی کہ پنجاب حکومت کی جانب سے پختونوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر خیبرپختونخوا کی اسمبلی سخت احتجاج ریکارڈ کرائے۔

پی پی پی کی نگہت اورکزئی کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے آپریشن ردالفساد سے توجہ ہٹانے کیلئے پختونوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا ہے، لیکن سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھنا چاہیے۔

انھوں نے شریف برادران پر پختون مخالف پالیسی بنانے کا الزام لگایا۔

فاخر عظیم کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت لسانی بنیادوں پر لوگوں کی گرفتاریاں کر کے آئین کی خلاف ورزی کررہی ہے، 'اس سے قبل پختون پنجاب کے تحفظ کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں، حکمران مشرقی پاکستانی کی کہانی کو دوبارہ نہ دہرائیں'۔

سینئر وزیر عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ پختونوں کے خلاف کارروائی وفاق کی حیثیت کو متاثر کرسکتی ہے، 'پنجاب کے ہوٹلوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی پختون کو رہائش نہ دی جائے جبکہ ہزاروں پختونوں کے نیشنل آئی ڈی کارڈز صوبے میں بلاک کردیئے گئے ہیں'۔

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راشد خان اور راجہ فیصل زمان نے بھی پنجاب میں پختونوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی مزمت کی اور تجویز دی کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف سے اس معاملے پر بات چیت کیلئے ایک پارلیمانی وفد کو لاہور بھیجا جائے۔

صوبائی وزیر شاہ فرمان نے شریف خاندان پر ان کے ذاتی مفاد کیلئے 'تقسیم کی سیاست سے حکمرانی' کرنے کا الزام لگایا۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ پنجابی اور پختونوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ نواز گروپ اور پختونوں کے درمیان معاملہ ہے'۔

انھوں نے کہا کہ کچھ ایسے آثار ملے ہیں کہ غیر ملکی طاقتیں ملک میں 'یوگوسلاویہ جیسی صورت حال' پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

یہ رپورٹ 28 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں