اسلام آباد: کثیر جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں شامل اہم سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں نے ملک میں دہشت گردی کی جاری سرگرمیوں پر نہ صرف حکومت بلکہ فوجی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی کے سوا تمام رہنماؤں نے حال ہی میں جاری کیے گئے آپریشن رد الفساد کے نتائج پر بھی مایوسی کا اظہار کیا۔

تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب سے حاصل ہونے والے فوائد کو استحکام دینے کیلئے رد الفساد کا آغاز کیا گیا ہے۔

کانفرنس کا انعقاد مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی جانب سے کیا گیا تھا جس کا موضوع 'دہشت گردی کے خلاف اتحاد' تھا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہورہا ہے، خیال رہے کہ شیخ رشید کو فوج کا حمایتی تصور کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'میں دیکھ رہا ہوں کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی دھجیاں بکھر گئی ہیں، راولپنڈی میں میرے گھر کے اطراف میں ہر مسلک کے لوگ رہتے ہیں لیکن ان کے درمیان کبھی کوئی کشیدگی نہیں پائی گئی تھی، لیکن اب لوگ ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں'۔

انھوں نے موجودہ حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عام شہری معصوم ہیں اور وہ فوری نتائج چاہتے ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 'میں کچھ بھی ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہا ہوں یا کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کہوں، پہلے جنرل کیانی آئے اور انھوں نے آپریشن راہ نجات کا آغاز کیا، بعد ازاں جنرل راحیل نے ضرب عضب کا آغاز کیا اور اب نئے آرمی چیف نے آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا ہے'۔

متعدد رہنماؤں نے حکومت کو امریکا کی پالیسوں کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کی جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا آغاز ہوا۔

ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ 'یہ تمام پالیسز، جن میں افغان تعلقات، جہادی پالیسی یا سرد جنگ شامل ہے، دراصل غیر جمہوری ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ ان پالیسیز کی وجہ سے پاکستان میں طاقت کا توازن خراب ہوا اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نفرت کی ثقافت'، عسکریت پسندوں کو نقل و حمل کی آزادی اور سیاسی کرپشن کو قومی پالیسی کے طور پر پھیلایا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس قسم کی تمام پالیسز کی وجہ سے پاکستان کا مقصد — جو قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا نظریہ تھا— ختم ہوچکا ہے، 'ہم شدت پسندی، فرقہ واریت اور نفرت نہیں چاہتے، ہر کوئی آئین کے مطابق ترقی پسند اور مسلم معاشرہ چاہتا ہے'۔

کانفرنس کے شرکا کا کہنا تھا کہ دہشت گرد مزارات پر بم دھماکوں کے ذریعے معاشرے میں محبت کی ثقافت کو تباہ کررہے ہیں جبکہ نیشنل ایکشن پلان کے نتائج یہ ہیں کہ سیکڑوں امام مساجد کو گرفتار کی جاچکا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے حکومت کو اختیار دیا تھا اور فوجی عدالتوں کا قیام اس شرط پر عمل میں لایا گیا تھا کہ دو سال میں سول کورٹس کو مضبوط کیا جائے گا، 'لیکن دو سال کے بعد ہم کہا کھڑے ہیں؟ کیونکہ موجود حکومت آر اوز کی جانب سے فراہم کیے گئے جعلی مینڈیٹ پر حاصل کی گئی تھی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے سرحد پار حملوں کیلئے کیا کیا ہے؟ 'کچھ بھی نہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے'۔

متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے افغان جہاد اور طالبان کو برداشت کرنے کی پالیسی پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک ان کے سہولت کاروں کو ختم نہیں کیا جاتا۔

کانفرنس سے جمعیت علماء پاکستان کے رہنما شہزادہ ابوالخیر، جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم، پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈا پور، اے این پی کے افراسیاب خٹک اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

یہ رپورٹ یکم مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں