مولانا طاہر محمود اشرفی نے امریکی اور جرمن اداروں سمیت کسی بھی غیر ملکی حکومت سے فنڈز لینے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'امن کمیٹیاں قائم کرنے کا ارادہ رکھنے والے امریکیوں نے ان سے رابطہ کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں مختلف معاملات میں ان کی رہنمائی کروں، تاہم اس منصوبے پر عملدرآمد نہیں ہوسکا'۔

واضح رہے کہ غیر ملکی فنڈنگ سمیت دیگر الزامات کی بنیاد پر گذشتہ دنوں طاہر اشرفی کو علماء کونسل کی صدارت سے برطرف کردیا گیا۔

کونسل کے نئے چیئرمین صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے گذشتہ ہفتے فیصل آباد کی ایک مسجد میں ہونے والے پاکستان علماء کونسل شوریٰ کے اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ جامعہ قاسمیہ میں اکھٹے ہونے والے 500 علماء نے مولانا طاہر اشرفی کو علماء کونسل کی صدارت سے ہٹانے اور ان کی جگہ صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی کو چیئرمین مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اپنے بیان میں صاحبزادہ قاسمی کا کہنا تھا کہ 'پاکستان علماء کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ، طاہر اشرفی کو کونسل کے چیئرمین کے عہدے سے معطل کرتی ہے، جبکہ ذیلی اداروں سے ان کی بنیادی رکنیت کو ختم کرتے ہوئے اس عہدے پر صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی کو منتخب کرتی ہے'۔

مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے نئے چیئرمین کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ 'علماء کونسل کے سابق چیئرمین نے شوریٰ سے مشاورت کے بغیر داخلی و خارجی معاملات پر اپنی مرضی سے فیصلے کیے، علاوہ ازیں چند مستند حقائق اور شواہد کے مطابق حافظ طاہر اشرفی نے غیرملکیوں سے روابط قائم کیے جو اسلام، آئینِ پاکستان اور پاکستان علماء کونسل کے منشور کے خلاف ہیں'۔

ان الزامات میں اہم ترین الزام یہ تھا کہ 'طاہر اشرفی نے خفیہ طور پر امریکی اور جرمن حکومتوں سے بھاری فنڈز وصول کرکے پاکستان میں موجود مدارس میں زیرتعلیم طالب علموں اور علماء کی جاسوسی کی'۔

دوسری جانب طاہر اشرفی کی جانب سے اس الزام کو یکسر مسترد کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ وہ اپنی برطرفی پر بالکل پریشان نہیں۔

ان کا کہنا تھا 'جن لوگوں نے مجھے کونسل کی صدارت سے ہٹایا انہیں ایسا کرنے کا اختیار حاصل نہیں اور جس اجلاس میں میری برطرفی کا فیصلہ کیا گیا اس میں شوریٰ کے صرف چند ارکان موجود تھے'۔

طاہر اشرفی کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'چند عناصر طویل عرصے سے میرے خلاف سازش میں مصروف تھے جو فرقہ واریت، خواتین کے حقوق، توہین کے قوانین جیسے معاملات پر میرے نظریئے کو تسلیم نہیں کرتے'۔

کسی کا بھی نام لیے بغیر طاہر اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی لوگ ان کے معتدل مذہبی جذبات کی مخالفت اور عوامی جذبات کو ان کے خلاف ابھارنے کی کوشش کرچکے ہیں۔

سابق چیئرمین علماء کونسل کا دعویٰ تھا کہ شوریٰ نے حالیہ دنوں میں لاپتہ بلاگرز کے خلاف فتویٰ جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق اعتدال پسند نظریات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے'۔

سابق چیئرمین علماء کونسل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی صدارت میں کونسل کا کام مزید بہتر ہوا ہے اور چاہے وہ رہیں نہ رہیں کونسل اپنا کردار ادا کرتی رہے گی تاہم انتظامیہ کو ان کا متبادل تلاش کرنے اور متعدد اہم معاملات میں جرات مندانہ اقدامات اٹھانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

سید آصف جلال Mar 06, 2017 04:28pm
میری دانست میں طاہر اشرفی صاحب اس عہدے کے لئے نہایت موزوں انتخاب تھے، اعتدال پسند اسلام اس وقت عہد حاضر کی ضرورت ہے، اعتدال کے فلسفے کو بین الواقوامی سطح اجاگر کرنا بے حد ضروری ہوگیا ہے اور اس ضمن میں طاہر اشرفی صاحب بہترین کردار تھے، وہ ناصرف ملکی بلکہ بین القوامی امور پر بھی ٹھوس موقف رکھتے ہیں اور بین القوامی سیاست سے باخبر رہتے ہیں۔۔
ارشد Mar 06, 2017 05:46pm
طاہر اشرفی کےساتھ بھت اچھے وقت گزرتے تھے. وہ ڈرینکینگ کامخالف بھی نہیں تھا.خودبھی پیتاتھا