پاکستان میں کسی بھی کتابیں شائع کرنے والے ادارے سے دریافت کیا جائے کہ کتاب کی فروخت کی صورتحال کیا ہے، تو جواب منفی ہوتا ہے، اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ کتاب کی فروخت بہت محدود ہے ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کی وجہ سے مطالعے کے رجحان میں کمی ہوئی ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ عہدِ حاضر کی مصروف زندگی میں ٹیکنالوجی سے کتاب ہار گئی ہے۔

موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کو زیادہ توجہ ملتی ہے لیکن دوسری طرف زمینی حقائق یہ ہیں کہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے نمائندگان کے مطابق ’’گزشتہ برس 2016 میں کروڑوں روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ ‘‘کراچی کے ایکسپو سینٹر میں سجایا جانے والا کُتب میلہ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے جہاں بہت بڑے پیمانے پر کتاب کی خرید و فروخت ہوئی۔

اس سارے منظرنامے میں جو بات اہم ہے، وہ اچھی کتابوں کا مستقل اور مسلسل شایع ہونا ہے۔ ہر چند کہ ان کی تعداد کم ہے مگر بہرحال معیاری کام کرنے والے اپنے حصے کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔

مندرجہ ذیل کتابوں کا یہاں تعارف کروانا اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ معیاری کام کرنے والے مصنفین اور ناشرین کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس مثبت رجحان کو مزید پروان چڑھایا جاسکے۔ ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت جس چیز کی ہے وہ کتاب ہے اور اس کے بغیر معاشرے بانجھ رہتے ہیں اورافکار تشنہ۔ آپ کے ذوق کی آبیاری میں یہ کتابیں اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔


کتاب کا نام: لاہور میں اردو تھیٹر کی روایت اور ارتقاء (ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ)



- کتاب: لاہور میں اردو تھیٹر کی روایت اور ارتقاء (ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ)

- مصنف: ڈاکٹر محمد سلمان بھٹی

- صفحات: 320

- ناشر: بک ٹائم، کراچی

- قیمت: 900 روپے

یہ کتاب مصنف کے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جو بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں محقق نے قیامِ پاکستان سے قبل کے تھیٹر دور کا تفصیلی جائزہ رقم کیا ہے جبکہ دیگر ابواب میں پاکستان میں تھیٹر کے ادوار اور اس کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالی ہے۔

نہ صرف تھیٹر کے فن پر یہ ایک اہم کتاب ہے بلکہ لاہور کے دائرے میں کام کرنے والے فنکاروں کی زندگی اورکاوشوں کو بھی بیان کرتی ہے۔ یہ کتاب صرف تھیٹر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام قاری اور تھیٹر کے موضوع پر کام کرنے والے طالبِ علم کے لیے بھی معلومات کا ایک خزانہ ہے، جس سے واقف نہ ہونا ستم ظریفی ہوگی۔

اس شاندار تحقیق پر مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں، جنہوں نے اس مقالے کو لکھنے کے بعد کتابی صورت دیتے وقت مزید تحقیق کی اور پھر اسے سپرد قلم کیا۔ کتاب کی قیمت تھوڑی زیادہ ضرور ہے۔


کتاب کا نام: وحید مراد (His Life and Our Time) تحقیقی تصنیف



- کتاب: وحید مراد (His Life and Our Time) تحقیقی تصنیف

- مصنف: خرم علی شفیق

- صفحات: 160

- ناشر: لبرڈکس، کراچی، نوٹنگھم

- قیمت: 300 روپے

یہ کتاب پاکستانی سینما کے معروف اداکار وحید مراد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے متعلق ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اس فنکار کے ان پوشیدہ پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کو جان لینے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وحید مراد کی فکری جہتیں کس قدر گہری اور روشن خیال تھیں۔ مصنف نے اس تناظر میں کئی سوالات اٹھائے ہیں اور پھر ان کے جوابات دینے کی سعی بھی کی ہے۔

کتاب میں بے شمار تاریخی حوالے رقم ہیں، جبکہ تصاویر سے مزین اس کتاب میں قاری کی دلچسپی کے لیے بہت کچھ ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے تا کہ وہ فلم بین، جنہوں نے وحید مراد کی زندگی کو اسکرین پر، اردو زبان میں دیکھا وہ اس علمی کاوش سے بھی مستفید ہو سکیں۔ کتاب کی قیمت مناسب اور طباعت عمدہ ہے۔ اس کام کے لیے خرم علی شفیق مبارک باد کے مستحق ہیں۔


کتاب کا نام: اکہتر کے وہ دن (یادداشتیں)



- کتاب: اکہتر کے وہ دن (یادداشتیں)

- تدوین و تعارف: احمد سلیم

- صفحات: 376

- ناشر: جمہوری پبلی کیشنز، لاہور

- قیمت: 500 روپے

یہ کتاب بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب کو بیان کرتی ہوئی یادداشتیں ہیں، جن کی راوی جہاں آرا امام ہیں۔ اس کتاب کے انتساب میں لکھا ہے "پاکستانی عوام کے نام، جو ان حقائق کو پہلی بار جان پائیں گے۔‘‘ کتاب کے تعارف کو فیض احمد فیض کے مصرعے "خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد" سے بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب بنگلہ زبان میں لکھی گئی تھی، اس کا اردو ترجمہ براہ راست بنگالی زبان سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا یکم مارچ 1971 سے ہوتی ہے جبکہ اس ڈائری نما یادداشتوں کا اختتام 17 دسمبر 1971 پر ہوتا ہے۔ یہ کتاب تاریخ کے تاریک گوشوں اور کڑواہٹ بھرے، تلخ حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔


کتاب کا نام: گلدستہ شاہد احمد دہلوی (خاکے اور متفرق مضامین)



- کتاب: گلدستہ شاہد احمد دہلوی (خاکے اور متفرق مضامین)

- مرتبہ: راشد اشرف

- صفحات: 440

- ناشر: بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی

- قیمت: 400 روپے

یہ کتاب معروف لکھاری اور مشہورِ زمانہ ادبی جریدے ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کے لکھے ہوئے منتخب خاکے اور متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کو نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے محقق نے مرتب کیا ہے۔

چار حصوں میں تقسیم ابواب میں شاہد احمد دہلوی کی منتخب تحریروں کی تہذیب علمی و ادبی انداز میں کی گئی ہے، جس سے ان کی پیشہ ورانہ زندگی، تخلیقی مدارج اور فکری جہتوں کے بارے میں شناسائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کی طباعت بہت عمدہ اور قیمت انتہائی مناسب ہے۔

کلاسیکی ادب اور تحریروں میں دلچسپی لینے والے قارئین کے لیے یہ کتاب بے حد اہمیت کی حامل ہو گی۔


کتاب کا نام: رات بہت ہوا چلی (شاعری)



- کتاب: رات بہت ہوا چلی (شاعری)

- شاعر: رئیس فروغ

- صفحات: 364

- ناشر: طارق رئیس فروغ

- قیمت: قیمت: 800 روپے

پاکستان کے جدید شعری منظر نامے پر رئیس فروغ کا نام نمایاں ہے۔ ان کا واحد مجموعہ کلام "رات بہت ہوا چلی" ہے، جس کے دو ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ رئیس فروغ مرحوم نے اپنی منفرد شاعری کی بنا پر مشاعروں اور اہلِ شعر و ادب کے دل میں جگہ بنالی ہے۔

ان کے اشعار نے معاشرے کے مسافر بنے رہے حتیٰ کہ گزشتہ برس کوک اسٹوڈیو کے ایک گیت میں بھی ان کی شاعری کو شامل کیا جس سے ثابت ہوتا ہے آج بھی ان کی شاعری معاشرے سے ناطہ جوڑے ہوئے ہے۔ یہی تو عمدہ اور اعلٰی سطحی شاعری کی علامتیں ہوتی ہیں۔

رئیس فروغ کے صاحب زادے، طارق رئیس فروغ، خاندان کے دیگر افراد اور ان کے حلقہ احباب نے اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی لی، مستقبل قریب میں مزید غیر مطبوعہ کلام شایع کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ یہ رجحان حوصلہ افزا ہے، اس قدر دانی کی تحسین ہونی چاہیے۔


کتاب کا نام: شاعرات ارض پاکستان (شاعری اور تعارفی مضامین)



- کتاب: شاعرات ارض پاکستان (شاعری اور تعارفی مضامین)

- مولف: شبیر ناقد

- صفحات: 408

- ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی

- قیمت: قیمت: 1000 روپے

پاکستان میں شعری افق پر نئی شاعرات کے کلام کو جمع کیا گیا اور شاعرات پاکستان کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کے ذریعے سے پاکستانی شعری دنیا میں نسائی آوازوں کا جامع احاطہ کیا گیا۔

ان کتابوں کو یکجا کر کے جامع ایڈیشن کے نام سے زیر نظر کتاب شایع ہوئی، جس میں 110 شاعرات کا کلام اور ان کے فن کے تناظر میں لکھی گئی تحریریں ہیں، جن کو کتاب کے مولف نے عرق ریزی سے جمع کیا اور لکھا ہے۔

اس طرح کی کتابیں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہیں جبکہ قارئین کو بھی نئے لہجوں کی خبر ہوتی ہے۔ کتاب کی طباعت عمدہ اور انتخاب اچھا ہے، البتہ قیمت تھوڑی سی زیادہ ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Hassaan Ahmad chishti Mar 22, 2017 12:55pm
Issue is the ground reality that writer mentions above is true - to very much extent - about English books. However, situations about Urdu is not very appreciable. We do publish poetry books but the issue lies with the novels and short stories. Books on celebrities (unless they are auto/biographies) are of lesser interest and - in my very personal opinion - worthless (may be used as reference books by some of the audience but of no literary achievements). Same is the case with compilation books. These books do cater specific needs as peoples can find scattered topics (already published) in one book but these are not an "addition" to the literary world and thus are merely reference books.
Hassaan Ahmad chishti Mar 22, 2017 12:56pm
Our main problem - as I find as an avid Urdu/English reader - is that Urdu is becoming poor in terms of 'topics' or what we refer to as 'genre'. We can find novels on domestic issues and travels but other genre situation is not very appreciable. Apart from Mazhar Kaleem, we have not seen quality detective/crime writers since long. Only Nimra Ahmad seems to write quality Urdu novels with variety of topics; while other female writers are still writing in their silos of domestic politics and recurring romantic plots (majority of them are worthless digest writers). On the other hands, you can find English novels of all genre as easily as groceries.