اسلام آباد: صدر پاکستان ممنون حسین نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہندو میرج بل پر دستخط کردیے جس کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین نے دستخط کرکے ہندو میرج بل کو قانون میں تبدیل کردیا، یہ قانون ہندوؤں میں ہونے والی شادیوں اور دیگر خاندانی امور میں قانونی تحفظ فراہم کرے گا۔

ہندو میرج بل کے قانون بننے کے موقع پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والی اقلیتی برادری کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترمیم شدہ ’ہندو میرج بل‘ قومی اسمبلی سے منظور

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاکستان کے ہر شہری کے لیے ہمیشہ یکساں حقوق پر توجہ دی ہے،اقلیتی برادری بھی یکساں محب وطن ہے اور ان کے حقوق کا یکساں تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ہندو آبادی والے علاقوں میں شادیوں کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے رجسٹرار تعینات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ہندو برادری کو شادی اور علیحدگی سے متعلق حقوق فراہم کرے گا جبکہ یہ قانون بیوی اور بچوں کو مالی تحفظ بھی فراہم کرے گا۔

مزید پڑھیں: ہندو برادری کیلئے ملک کا پہلا قانون سینیٹ سے منظور

خیال رہے کہ 27 ستمبر 2016 کو 'ہندو میرج بل 2016' وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔

اس کے بعد 18 فروری 2017 کو یہ بل سینیٹ میں وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پیش کیا گیا تھا جس پر معمولی اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور کچھ ترامیم کے ساتھ اسے منظور کرلیا گیا تھا۔

سینیٹ کی جانب سے کی جانے والی ترامیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے ترمیم شدہ ہندو میرج بل 2016 کو 9 مارچ 2016 کو ایک بار پھر قومی اسمبلی میں بھیجا گیا تھا اور ایوان نے اس کی منظوری دے دی تھی جس کے بعد صدر مملکت کے دستخط باقی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں ہندو میرج بل منظور

بل میں علیحدگی اختیار کرنے والے ہندو جوڑوں کو دوبارہ شادی کی بھی اجازت دی گئی ہے، بل کی شق 17 کے مطابق ’ہندو بیوہ خواتین کو اپنی مرضی سے دوبارہ شادی کرنے کا حق حاصل ہوگا تاہم یہ ضروری ہے کہ اس کے شوہر کے انتقال کو کم سے کم 6 ماہ گزر چکے ہوں‘۔

قانون کی خلاف ورزی پر جرمانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب ہندو خاندان کے لیے شادی کا سرٹیفکیٹ 'شادی پرت' رکھنا لازمی ہوگا کیوں کہ اب تک ہندو برادری میں شادی کو کسی قانونی دستاویز سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ہندو کمیونٹی کیلئے ملک کا پہلا قانون ہے جو پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قابل عمل ہوگا کیونکہ سندھ اسمبلی اس سے قبل صوبے کیلئے ہندو میرج کا علیحدہ قانون متعارف کراچکی ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں