اسپاٹ فکسنگ تحقیقات: پی سی بی اور ایف آئی اے میں اختلافات

22 مارچ 2017
منگل کو شرجیل اور شاہ زیب ایف آئی اے کی سابر ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔
منگل کو شرجیل اور شاہ زیب ایف آئی اے کی سابر ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔

لاہور: پاکستان سپر لیگ کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پر پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کے درمیان معاملے کی تحقیقات پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے جہاں بورڈ کا اصرار ہے کہ کھلاڑیوں کے کسی بھی منفی طرز عمل کی تفتیش کرنا مکمل طور پر ان کا دائرہ اختیار ہے۔

پی سی بی کا ماننا ہے کہ کیونکہ کرکٹ میں اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے ملک میں کوئی قانون موجود نہیں ہے لہٰذا ایف آئی اے کو مقدمے سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے اور اسی لیے وہ مقدمے کے محض ’مجرمانہ پہلو‘ تک محدود رہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی سی بی کی جانب سے اب تک مشتبہ کھلاڑیوں شرجیل خان، محمد عرفان، خالد لطیف، شاہ زیب حسن کے سیل فون کے فارنسک ٹیسٹ کیلئے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ایجنسی کو فون فراہم نہیں کیے گئے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ معاملے کی تحقیقات میں دونوں ادارے ایک صفحے پر نہیں۔

ایف آئی اے کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسپاٹ فکسنگ میں مبینہ طور پر ملوث کھالڑیوں کے سیل فون کے فارنسک ٹیسٹ کے بغیر معاملے کی تحقیقات میں مزید ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ ایف آئی اے میں چار کھلاڑیوں نے اپنے بیان ریکارڈ کرا دیے ہیں جو بالکل وہی ہیں جو پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے جمع کرائے گئے ہیں اور اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔

منگل کو شرجیل اور شاہ زیب ایف آئی اے کی سابر ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے بیان ریکارڈ کرائے۔ عرفان اور خالد کی طرح انہوں نے بھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ ایف آئی اے نے اوپننگ بلے باز ناصر جمشید کو بھی طلب کیا تھا لیکن ایجنسی کو بتایا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ان کا پاسپورٹ رکھ لیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کی تفتیش مکمل ہونے پر مزید کرکٹرز سے بھی تفتیش کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کہ یہ معاملہ محض پی ایس ایل 2017 میں اسپاٹ فکسنگ تک محدود نہیں بلکہ مزید میچز اور کھلاڑی بھی اس میں شریک ہیں۔ کھلاڑیوں کے سیل فون کے فارنسک ٹیسٹ کے بعد اس بھیانک جرم میں ملوث مزید کھلاڑیوں تک پہنچنے میں بہت مدد ملے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کو واٹس ایپ کا ڈیٹا بازیافت کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں کیونکہ کھلاڑیوں نے بکیز سے ہونے والی گفتگو کو مٹا دیا ہے اور اس سلسلے میں شاید واٹس ایپ انتظامیہ تعاون نہ کرے۔ فارنسک ٹیسٹ سے تمام گفتگو بازیافت کی جا سکتی ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایل چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے خلاف اور نہ ہی انہوں نے تفتیشی عمل روکنے کا کہا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایف اائی معاملے کی تحقیقات جاری رکھے اور زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ برطانوی کرائم ایجنسی کی طرح نکیز کو پکڑنے پر کام کرے۔

’پی سی بی کے اپنے قوانین جو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوانین سے زیادہ سخت ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اسپاٹ فکسنگ جیسے معاملے سے نمٹنے کیلئے قانون نہیں لہٰذا یہ معاملہ پی سی بی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور بورڈ معاملے میں ملوث کھلاڑیوں کو مثالی سزا دے گا۔

نجم سیٹھی کہا کہ ایف آئی اے اس معاملے کے مجرمانہ پہلو پر تفتیش کرے اور اگر پی سی بی ٹریبونل کو اپنی تحقیقات میں کوئی اس طرح کی چیز نظر آئی تو ایف آئی اے کو ایکشن لینے کے بارے میں کہا جائے گا۔ البتہ بہتر ہو گا کہ ایف آئی اے بکیز کو پکڑنے پرمحنت صرف کرے اور غلط کاموں میں ملوث کھلاڑیوں سے پی سی بی کو نمٹنے دے۔

اس موقع پر پی سی بی کی جانب سے کھلاڑیوں کے سیل فون ایف آئی اے کو دینے میں ہچکچاہت کے سوال پر سیٹھی نے کہا کہ ایجنسی نے ابھی تک سیل فون دینے کا مطالبہ نہیں کیا، وہ جب کہیں گے ہم انہیں حوالے کر دیں گے۔

ادھر اداروں کے بیچ اختلافات کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پی سی بی اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مل کر کام کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں