پنجاب یونیورسٹی میں منگل کے روز ہونے والا تصادم، جس میں کم از کم دس طلبہ زخمی ہوئے، ایسا لاوا تھا جو کئی ماہ سے پک رہا تھا۔ گذشتہ دو سالوں میں پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں مقیم اسلامی جمعیتِ طلبا اور پختون و بلوچ طلبا کئی دفعہ آپس میں گتھم گتھا ہو چکے ہیں۔

حالیہ تصادم اس وقت ہوا جب بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے طلبا جمعیت کے سخت نظم و ضبط پر پابند نہیں نظر آئے۔ پنجاب یونیورسٹی ضیاء دور یا اس سے بھی پہلے سے جمعیت کا گڑھ رہی ہے۔

مگر جلد ہی یہ پختون اور بلوچ طلبا اس جمعیت کے نزدیک ایک مخالف فریق بن گئے، جس کے سرپرستوں نے اب جمعیت کو ایک بوجھ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ وائس چانسلرز جمعیت کے اہم فروغ کنندگان تھے۔ مگر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے طلبا نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ جمعیت کے کہنے پر نہیں چلیں گے جو حد سے زیادہ حساس بڑے بھائی کا کردار ادا کر رہی تھی۔

نہ صرف یہ، بلکہ جمعیت اور اس کی بنیادی تنظیم جماعتِ اسلامی پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے اپنے قریبی تعلقات کھو چکی ہے۔

اگر جماعتِ اسلامی کی مسلم لیگ ن کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ کھلا ہوا ہوتا، تو جمعیت پھر بھی کچھ اثر و رسوخ کا مظاہرہ کر سکتی تھی، مگر جب یہ واضح ہوگیا کہ شریف برادران، جو پوری دنیا سے پاکستان میں سے انتہاپسندی ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں، جماعت سے فاصلہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، تو اس کے عوامی تاثر کو شدید نقصان پہنچا۔

اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ اثر و رسوخ میں کمی سے کیمپس کے پرانے بادشاہ مضطرب اقدامات اٹھائیں گے۔ چنانچہ نئے مخالفین کی جانب سے ایک میوزیکل ایونٹ ان عناصر کے لیے اتنا بڑا موقع تھا جسے گنوایا نہیں جا سکتا تھا۔

مگر حالات اب تبدیل ہو چکے ہیں، اور اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ اب کیمپسوں پر خوف کے ذریعے حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ یہ پرانے حربے شاید اب نہیں چلیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 23 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں