برطانوی پارلیمنٹ کے باہر گزشتہ روز حملہ کرنے والے والے شخص کی 52 سالہ خالد مسعود کے نام سے شناخت ہوئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق خالد مسعود شخصی حملے اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے سمیت کئی جرائم میں سزا بھگت چکا تھا۔

لندن میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق کئی عرفیت سے پہچانا جانے والا خالد مسعود کو جن جرائم میں سزا سنائی گئی ان میں سے کوئی بھی دہشت گردی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔

1964 میں جنوب مشرقی انگلینڈ میں پیدا ہونے والا خالد مسعود ویسٹ مِڈلینڈز میں مقیم تھا، جہاں حملے کے بعد پولیس نے کئی کارروائیاں کیں۔

پولیس نے کہا کہ خالد نے 1983 سے 2003 کے درمیان شخصی حملے کرنے، دردناک جسمانی نقصان پہنچانے، جارحانہ ہتھیار رکھنے اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے سمیت کئی جرائم کیے جس پر اسے مختلف سزائیں سنائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ: حملہ آور کی شناخت ہوگئی

’لیکن خالد دہشت گردی کے حوالے سے کبھی مجرم قرار نہیں پایا اور نہ ہی اس کے خلاف کبھی اس سے متعلق تحقیقات کی گئیں، جبکہ وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے اس حوالے سے ہمیں کبھی کوئی انٹیلی جنس رپورٹ بھی موصول نہیں ہوئی۔‘

مبصرین خالد کی عمر کو بھی خاص اہمیت دے رہے ہیں، کیونکہ دہشت گرد تنظیموں سے متاثر ہو کر اس طرح کیے جانے والے حملوں میں اکثر حملہ آور نوجوان ہوتے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا تھا کہ ’پرتشدد انتہا پسندی سے تعلق کے شبے میں انٹیلی جنس سروس ایم آئی 5 نے ایک بار خالد مسعود سے تحقیقات کی تھیں۔‘

اگرچہ پولیس کا ماننا ہے کہ حملہ صرف خالد مسعود نے کیا، لیکن دہشت گرد تنظیم داعش کا دعویٰ ہے کہ خالد اس کا ایک ’جنگجو‘ ہے، جس نے عراق اور شام میں تنظیم کے خلاف لڑنے والے ممالک کو ہدف بنانے کی ہدایت پر یہ حملہ کیا۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ کے باہر دہشت گرد حملہ، 4 افراد ہلاک

’خالد، ایک اچھا شخص‘

برمنگھم میں خالد مسعود کا گھر — فوٹو: اے پی
برمنگھم میں خالد مسعود کا گھر — فوٹو: اے پی

خالد مسعود نے حملے کے لیے برمنگھم کے نواحی علاقے میں ’انٹرپرائز‘ نامی کمپنی کی سولی ہُل برانچ سے گاڑی کرائے پر لی تھی، جس کی متعلقہ کمپنی نے بھی تصدیق کی۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق خالد نے کار کرائے پر دینے والی کمپنی کو بتایا کہ وہ ایک ’ٹیچر‘ ہے۔

خالد مسعود کی سابقہ پڑوسن آئیوونا رومیک نے کہا کہ ’خالد ایک اچھا شخص تھا اور میں اکثر اسے گارڈن میں پودوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھتی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا ’خالد کی بیوی ایشیائی خاتون تھیں اور اس کا ایک بچہ بھی تھا جو اسکول جاتا تھا، لیکن پھر اچانک یہ خاندان دوسرے علاقے میں منتقل ہوگیا۔‘

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ خالد مسعود 3 بچوں کا باپ تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں