معلوم ہوتا ہے کہ دواؤں اور طبی آلات کی تیاری اور فروخت کی تحقیقات میں تیزی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ایک فورم نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بارے میں تحقیقات کرنے کے لیے کہا ہے۔

یہ شکایت دواؤں اور طبی آلات، مثلاً کارڈیک اسٹنٹس کے بارے میں معمول کے مسائل کی جانب توجہ دلاتی ہے۔

بھلے ہی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہو، مگر سرکاری اداروں کو شفافیت اور بدعنوانی سے پاک کرنے کا مینڈیٹ رکھنے والا ادارہ نیب ملک کے طبی شعبے کے بارے میں طویل عرصے سے اور وقتاً فوقتاً اٹھائے جانے والے شکوک و شبہات کو نظرانداز نہیں کیے رکھ سکتا۔

پاکستان میں طبی شعبے میں بے پناہ اور متواتر اسکینڈلز سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے کئی سطحوں پر ان کی تحقیقات کے لیے آوازیں اٹھائی گئی ہیں۔

پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

تازہ ترین شکایت دواؤں کے ریکارڈ میں مبینہ بے ضابطگیوں، دواؤں کی قیمت میں اضافے اور دل کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو غیر معیاری اسٹنٹس فراہم کرنے کے بدنامِ زمانہ کیس کے بارے میں ہے۔

اور ہوسکتا ہے کہ یہ ایسے ہزاروں معاملات میں سے صرف چند ہوں۔ اصلاحات لانے کے لیے شروع کی گئی انکوائری مزید کئی 'انکشافات' کر سکتی ہے۔

اسی دوران نیب سے تحقیقات کی درخواست ہمارے ملک کے ان حالات کے بارے میں ایک یاددہانی ہے جن سے ہم ویسے بھی واقف ہیں۔ حالیہ اسکینڈل ان لوگوں کی بے یاری و مددگاری میں اضافہ ہے جو ایک طویل عرصے سے ایسے ہی جینے پر مجبور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بیورو کی تحقیقات سے ان بے ضابطگیوں کے لیے کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ چند افراد کو اپنے ان کرتوتوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے جن کی وجہ سے کئی لوگوں کو تکلیف اور نقصان پہنچا ہے۔

مگر طویل مدت میں جو چیز فائدہ دے گی وہ ایک جاری رہنے والی مہم ہوگی جس میں شعبے کے ماہرین، بشمول ڈاکٹر اور عوامی صحت کے دیگر ماہرین اور تکنیکی صلاحیت رکھنے والے منصوبہ ساز شامل ہوں۔

طبی حکام بارہا بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کر رہے ہیں، اور ان کے پاس دہائیوں سے جمع شدہ کام کرنے پر عوام سے تعریف چاہنے کے لیے وجوہات بھی موجود ہوں گی، مگر وہ طبی شعبے کے مسائل سے کسی قسم کی ایمرجنسی کا نفاذ کیے بغیر مؤثر طور پر نہیں نمٹ سکتے۔

لوگوں سے ہمدردی کے ان دکھاووں اور تحقیقات در تحقیقات سے زیادہ جس چیز کی اشد ضرورت ہے، وہ پاکستانیوں کی زندگیوں پر انمٹ نشان چھوڑ دینے والے اس خراب طرزِ حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ماہرانہ کوششیں ہیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 24 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں