واشنگٹن:امریکا میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی حکام کو ویزے جاری کرنے سے پہلے سفارت خانے میں موجود سول و عسکری ونگز سے مشاورت کی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی میڈیا میں افشا ہونے والی ایک سرکاری دستاویز سے پتہ چلا تھا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سابق سفیر حسین حقانی کو اسلام آباد کی کلیئرنس کے بغیر امریکی عہدیداروں کو ایک سال کی مدت کے لیے ویزے جاری کرنے کا اختیار دیا تھا۔

حسین حقانی نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے حکومت کو بتائے بغیر ویزے جاری کیے یا نہیں، تاہم انہوں نے یہ کہا کہ انہوں نے ویزا درخواستیں منظور کرنے سے قبل سفارت خانے میں موجود سیکیورٹی ذمہ داروں سے مشاورت کی تھی۔

ڈان کو کی گئی ایک ای میل میں انہوں نے لکھا ’میں وثوق سے کہتا ہوں کہ میرے دور میں واشنگٹن کے سفارت خانے نے کسی مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر ویزے جاری نہیں کیے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کی طرح سابق سفیر نے بھی کہا کہ اصل مسئلہ امریکی عہدیداروں کو ویزوں کا اجراء نہیں بلکہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں شائع ہونے والے خط سے ان کے اس مؤقف، جس میں انہوں نے یہ دعوے کیے تھے کہ امریکی عہدیداروں کو جاری کیے گئے ویزوں کی نظرثانی یا جانچ پڑتال میں سفارت خانے کا عسکری ونگ بھی ملوث ہوتا ہے، سمیت دیگر معاملات پر ان کی پوزیشن واضح ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'حسین حقانی کو ویزا جاری کرنے کا اختیار یوسف گیلانی نے دیا'

حسین حقانی نے رائی کا پہاڑ بنانے والے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ شخصیات پر الزام لگانا بند کرکے اداروں کی ناکامیوں کی جانچ پڑتال کریں۔

خیال رہے کہ میڈیا میں افشا ہونے والی دستاویز دراصل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی پرنسپل سیکریٹری نرگس سیٹھی کے دستخط سے جاری ہونے والا وہ خط ہے جو اس وقت واشنگٹن کے سفارت خانے کو بھیجا گیا تھا، جس میں سفیر کو امریکی عہدیداروں کو اسلام آباد کی مشاورت کے بغیر ایک سال کی مدت تک ویزے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

افشا ہونے والے خط سے پتہ چلتا ہے کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی امریکیوں کی جانب سے ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواست پاکستان کے متعلقہ افسران کو دینے کے بجائے پاکستانی سفیر کی جانب سے فوری طور پر ایک سال کی مدت کے لیے ویزا جاری کرنے کے اختیارات سے مطمئن تھے۔

خط میں نرگس سیٹھی نے لکھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کو اطلاع دے کر ویزے جاری کرسکتا ہے۔

اگرچہ افشا ہونے والے خط کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ ویزوں کے اجراء سے متعلق سرکاری طریقہ کار کو نظرانداز کرنا حسین حقانی کا صوابدیدی اختیار ہے، تاہم حسین حقانی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے اپنی ای میل میں لکھا کہ ان کی مدت میں ایک بھی ویزا مناسب طریقہ کار اور سیکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کے بغیر جاری نہیں کیا گیا۔

حسین حقانی کا کہنا ہے کہ 14 جولائی 2010 کو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے لکھا گیا خط دراصل ایک عام انتظامی حکم نامہ تھا، جس کا مقصد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ویزوں کی درخواستوں کو اسلام آباد بھیجے بغیر انہیں نمٹانے کے لیے ایک طریقہ کار بنانا اور سفیر کو ویزا اجراء کا اختیار دینا تھا۔

سابق سفیر کے مطابق یہ اختیار ملنے کے بعد سفارت خانے کے اندرونی نظام کے تحت ویزوں کے اجراء کی جانچ پڑتال کا معاملہ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے نمائندوں کے سپرد کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکیوں کو ویزوں کا اجراء: ’گیلانی کے خط میں کوئی غلط بات نہیں‘

حسین حقانی نے بتایا کہ 2 مئی 2011 کو امریکی حملے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد انہوں نے بار بار کہا کہ’ایک تو کوئی بھی ویزا مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر جاری نہیں کیا گیا اور دوسرا یہ کہ اگر اس دوران امریکی عہدیداروں کو ویزا اجراء کی جانچ پڑتال کا نظام تبدیل بھی ہوگیا ہو تو بھی اس میں بڑی انٹیلی جنس ایجنسیز کی مداخلت تھی'۔

سابق سفیر کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر اہم مسئلہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نے خط میں کیسے، کیوں اور کیا لکھا تھا، اپنے اتحادی اور امداد دینے والے ممالک کے عہدیداروں کو ویزا جاری کرنے کے طریقہ کار پر میڈیا کو وقت برباد کرنے کے بجائے اس پر توجہ دینی چاہئیے کہ اسامہ بن لادن کس طرح اتنے عرصے تک پاکستان میں رہ رہے تھے؟

حسین حقانی کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ اس مسئلے کو متنازع بنانے کے لیے اسے اچھال رہے ہیں، وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکیوں کو ایک ہی طریقہ کار کے تحت ویزا جاری کیے جاتے ہیں اور یہ معاملہ 1947 سے چلا آ رہا ہے۔

سابق سفیر کے مطابق حکومت پاکستان کے تمام ادارے، سول و عسکری قیادت واشنگٹن میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے امریکی عہدیداروں کے پاکستانی سفر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: امریکیوں کو ویزا اجراء:’اختیارات سفیر کو نہیں سفارت خانے کو دیئے‘

خیال رہے کہ رواں ماہ 10 مارچ کو حسین حقانی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما انتظامیہ کے ساتھ ان کے تعلقات کا مقصد دراصل پاکستان میں موجود اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں مدد فراہم کرنا تھا۔

حسین حقانی نے لکھا، 'اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے،امریکی قومی سلامتی میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے 3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی'۔

اپنے دوستوں کی جانب سے مدد طلب کیے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے حسین حقانی نے لکھا کہ 'انہوں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھی، جسے منظور کرلیا گیا، اگرچہ امریکا نے آپریشن کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ طور پر پلان سے باہر رکھا، تاہم مقامی طور پر تعینات امریکیوں کی ناکامی کے بعد سابق صدر اوباما نے پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر نیوی سیل ٹیم 6 بھیجنے کا فیصلہ کیا'۔

حسین حقانی کے دعووں کے بعد پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے امریکی آپریشن کے سلسلے میں سابق سفیر اور پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے کردار کے حوالے سے نیا تنازع سامنے آیا ہے، اگرچہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ اور میڈیا میں متعدد بار بحث ہوچکی ہے، تاہم یہ تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔


یہ خبر 25 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں