واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صحت سے متعلق اصلاحات بل کو امریکی ایوان کی جانب سے مسترد کیے جانے کو ٹرمپ اور ان کی ریپبلکن پارٹی کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے 24 مارچ کو ریپبلکنز سے صحت بل کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کا کہا تھا، مگر یہ بل کانگریس کی جانب سے مطلوبہ حمایت حاصل نہیں کرپایا، جسے امریکی صدر کے لیے 'بری شکست' قرار دیا جا رہا ہے۔

ٹرمپ اپنے اس بل کے ذریعے سابق صدر براک اوباما کے صحت بل کو ختم کرنا چاہتے تھے، مگر وہ اس کوشش میں ناکام ہوگئے، کیوں کہ ان کا پیش کردہ بل کچھ ہی منٹ میں واپس کردیا گیا۔

خیال رہے کہ صحت سے متعلق اصلاحات ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کا اہم حصہ تھیں اور انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ واحد شخص ہیں جو امریکا کے صحت کے نظام کو درست کرسکتے ہیں، مگر ان کے پیش کردہ بل کو ان کی اپنی ہی جماعت ریپبلکن کے قانون سازوں نے مسترد کردیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انہں اپنا صدر نہیں مانتے۔

ریپلکن جماعت کے قانون سازوں نے گزشتہ 7 برس تک سابق صدر براک اوباما کے صحت بل کی مخالفت کی اور اسے مکمل طور پر یا جزوی طور پر واپس لینے کے لیے اپنے ووٹوں کا بھی استعمال کیا، مگر جب انہیں اس بل کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اچھا موقع ملا تو انہوں نے اسے ختم نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’امریکی شہریوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر تسلیم کرنے سے انکار‘

اب آگے کیا ہوگا، یہ واضح نہیں ہے، تاہم یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ صحت سے متعلق ٹیکس اصلاحات کی جائیں گی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کانگریس میں اس شکست کو ان کی سیاسی کمزوری، صدارتی مہم کے دوران روس کے کردار اور ان کی جانب سے سابق صدر براک اوباما پر جاسوسی کے الزامات کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

ایک دن تاخیر کے بعد پیش کیے گئے صحت بل کو کانگریس میں اُس وقت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جب اس بل کو حمایت حاصل کرنے کے لیے پیش کیا گیا، مگر صورتحال اُس وقت تبدیل ہوگئی جب کچھ قانون سازوں نے بل کی مخالفت کی۔

چیئرمین آف میجر کمیٹی اور نیو جرسی سے منتخب ہونے والے کانگریس کے رکن روڈنی فریلنگسن نے کہا کہ بل کے ذریعے ناقابل برداشت اخراجات میں اضافہ ہوگا۔

واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے کچھ عہدیداروں اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال رائن نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بل کو مطلوبہ ووٹ نہیں مل رہے تو اسے واپس لیا جانا چاہئیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ بل میں جہاں براک اوباما کے بل کی مخالفت کی گئی تھی، وہیں اس کے ذریعے لوگوں کی انشورنس اوردیگر سہولیات کو بھی ختم کیا گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ بل براک اوباما بل کے بل کے ذریعے امریکا کی مختلف ریاستوں کے عوام کو وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی سہولیات اور امداد کو ختم کردیتا، جس سے مختلف امریکی ریاستوں کے 7 کروڑ افراد متاثر ہوتے۔


یہ خبر 25 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں