شامی مہاجرین کی تصاویر میں چھپی کہانیاں

شامی مہاجرین کی تصاویرمیں چھپی کہانیاں


شامی مہاجرین کی مشکلات کا اندازہ عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور تصاویر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور پھر ترکی کے ساحل پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے شامی مہاجر بچے ایلان کردی کی تصویر کو کون بھلا سکتا ہے، جس نے عالمی ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

شامی مہاجرین ہوں یا پھر لیبیا، عراق اور یمن میں خانہ جنگی کے شکار افراد، آج کل سمارٹ فونز کا استعمال ہر جگہ یکساں نظر آتا ہے۔

برطانوی نژاد ڈچ امریکن فوٹو گرافر الیکس جوہن بیک نے برطانوی فلاحی ادارے آکسفیم کے تعاون سے لبنان، اردن اور یورپ کے ان ممالک کا دورہ کیا جہاں شامی مہاجرین دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

الیکس جوہن بیک نے کئی شامی مہاجرین سے ملاقاتیں کیں اور ان سے اپنی وہ تصاویر حاصل کیں، جو انہوں نے اپنا ملک چھوڑنے کے دوران یا پھر خانہ جنگی اور دوسرے ممالک میں پناہ اختیار کرتے وقت اپنے سمارٹ فونز میں محفوظ کی تھیں۔

الیکس جوہن بیک کی یہ تصاویر عالمی میڈیا کے مختلف اداروں میں شائع ہوئیں، جنہیں یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

یہ سب تصاویر مختلف شامی مہاجرین کی ہیں جو انہوں نے اپنے اسمارٹ فونز کی مدد سے مختلف اوقات میں لیں، ان تصاویر کے ساتھ مہاجرین کی جانب سے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر بھی شائع کی گئی۔

یہ تصویر لبنان کے شہر بیروت میں رہنے والی شامی مہاجر شتیلا اور ان کے بیٹوں کی ہیں، موبائل میں نظر آنے والا شخص ان کا بڑا بیٹا تھا جو شام اور فلسطین کی سرحد کے قریب مہاجرین کے کیمپ میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہوا۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


لبنان میں رہنے والے شامی مہاجر خاندان کی خواتین اور موبائل میں نظر آنے والا ان کا بھائی جو شامی شہر رقہ میں خانہ جنگی کے دوران ہلاک ہوا، ہلاک ہونے والے شخص کے 5 بچے ہیں۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


خانہ جنگی کے بعد اپنا ملک چھوڑنے والی ایک شامی مہاجر خاتون نے اپنی تصویر دینے سے انکار کیا، تاہم انہوں نے اپنے بچوں کی تصویر فراہم کی۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


بیروت میں رہنے والی شامی مہاجر خاتون شتیلا اپنے پوتوں کے ساتھ، جب کہ تصویر میں نظر آنے والا شخص ان کا شوہر ہے، جنہوں نے یہ تصویر کھینچی تھی۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


خانہ جنگی کے بعد ملک چھوڑ کر جانے والا ایک خاندان واپس اپنے ملک پہنچ چکا ہے، مگر اب شام میں پہلے جیسے حالات نہیں، ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے، موبائل میں ان کے علاقے کی 2013 میں لی گئی وہ تصویر، جس میں عمارتوں کو کھنڈر بنا دیکھا جا سکتا ہے۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


بقا ویلے لبنان میں رہائش اختیار کرنے والی مہاجر خاتون کے مطابق انہوں نے اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے لی گئی تصاویر داعش کی جانب سے تلاشی لیے جانے کے خوف سے ڈیلیٹ کردیں۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


شامی شہر رقہ کے رہائشی حیدر شامی فوج کا حصہ بننا چاہتے تھے، مگر قسمت نے انہیں دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا، وہ خانہ جنگی کے بعد شام سے غیر قانونی طریقے سے نکل کر لبنان پہنچے، وہ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، خانہ جنگی سے تھوڑا عرصہ قبل ہی انہوں نے منگنی کی تھی، مگر انہیں نہیں پتہ کہ اب ان کی منگیتر کہاں ہے، زندہ بھی ہے یا نہیں؟


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک


حلب کے 16 سالہ نوجوان جورم خانہ جنگی کے دوران تباہ ہونے والے اپنے گھر کے ملبے پر کھڑے ہیں، موبائل سے لی گئی تصویر میں تباہ حال شام کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔


تصویر:لیکس جوہن بیک
تصویر:لیکس جوہن بیک