افغانستان کا اسپیشل فورسز بڑھانے کا منصوبہ

افغانستان کی 3 لاکھ کی فوج میں اسپیشل فورسز کی تعداد نہایت قلیل ہے—فوٹو: رائٹرز
افغانستان کی 3 لاکھ کی فوج میں اسپیشل فورسز کی تعداد نہایت قلیل ہے—فوٹو: رائٹرز

افغانستان نے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر اسپشیل فورسز کی تعداد کو 17000 سے بڑھانے کا منصوبہ بنالیا ہے.

غیرملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسپیشل فورسز کی تعداد افغانستان کی 3 لاکھ کی فوج میں بہت قلیل ہے جو فوج کے ملک بھر میں 70 فی صد جارحانہ آپریشنزکی ذمہ داری اٹھاتی ہیں۔ پولیس سمیت مستقل فورسز کو پوزیشن کے دفاع کے لیے تعینات کیا جاتاہے، اسپیشل فورسز شمال میں کندوز اور جنوب میں ہلمند تک دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہیں جبکہ بعض اوقات امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔

نئے کمانڈوز کو تربیت دی جارہی ہے—فوٹو:رائٹرز
نئے کمانڈوز کو تربیت دی جارہی ہے—فوٹو:رائٹرز

وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے کہا کہ 'ہماری کمانڈو فورسز کو مضبوط اور بہتر طور پر لیس کرنے کی ضرورت ہے'۔

وزیری نے مکمل تعداد بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ آرمی کی سطح پر صرف اسپیشل ڈویژن کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

دوسری جانب تین افغان اور مغربی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ موجودہ منصوبہ بندی کے تحت اسپیشل فورسز کو دوگنا کردیا جائے گا اور حکومت فنڈنگ اور دیگر معاونت کے لیے بیرونی امداد کے لیے مذاکرات کررہی ہے۔

افغان اسپیشل فورسزملک کے مختلف علاقوں میں تربیت حاصل  کررہے ہیں—فوٹو رائٹرز
افغان اسپیشل فورسزملک کے مختلف علاقوں میں تربیت حاصل کررہے ہیں—فوٹو رائٹرز

نیٹو اتحاد کے ترجمان کیپٹن بل سیلون کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں گزشتہ سال کی جنگ کے دوران کام آنے والے فوجیوں کے متبادل کے لیے توجہ مرکوز تھی۔

سیلون نے کہا کہ 'افغان صدر اشرف غنی نے حال ہی میں جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطابق سطح کو بلند کرنے میں کئی برس لگیں گے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسپیشل فورسز کی میڈیکل یونٹ، انٹیلی جینس، لوجسٹکس اور کمیونیکیشن کے ساتھ ساتھ مزید کمانڈوز کی تربیت بھی جاری ہے۔

نئے فوجیوں کو تربیت کے لیے سخت محنت کرائی جارہی ہے—فوٹو:رائٹرز
نئے فوجیوں کو تربیت کے لیے سخت محنت کرائی جارہی ہے—فوٹو:رائٹرز

ٹرمپ کا فیصلہ

افغان آرمی کے اسپیشل آپریشن کا مرکز کابل سے باہر ہے جس کے لیے سپاہی پراعتماد ہیں کہ وہ کام کو سنبھال لیں گے۔

اسپیشل فورسز کے ایک کمانڈر فواد کمال نے کہا کہ 'ہمارے آپریشنز میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہم اپنی کوششوں کو بلا تعطل جاری رکھیں گے'۔

افغان اسپیشل فورسز کا مرکز کابل سے باہر واقع ہے—فوٹو:رائٹرز
افغان اسپیشل فورسز کا مرکز کابل سے باہر واقع ہے—فوٹو:رائٹرز

کمانڈو کی تربیت حاصل کرنے والے محمد عارف نے کہا کہ 'ملک میں کمانڈوز اور اسپیشل فورسز کے اضافے کی اشد ضرورت ہے اور جس قدر وہ لیس ہوں گے تو وہ ملک کا دفاع اچھی طرح کرسکیں گے'۔

افغانستان کے عالمی اتحادیوں نے اسپیشل فورسز کی کارکردگی کی تعریف کی ہے لیکن کام کے دباؤ پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔

افغانستان میں امریکا کے اعلیٰ کمانڈر جنرل جان نیکولسن نے سردیوں کے مہینوں میں فورسز کو مضبوط کرنے کے لیے منصوبوں پر بات کی تھی۔

زیرتربیت فوجیوں کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں—فوٹو:رائٹرز
زیرتربیت فوجیوں کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں—فوٹو:رائٹرز

افغانستان میں امریکا کی کاؤنٹرٹیرارزم یونٹ کا ایک محدود گروپ القاعدہ اور اسلامک اسٹیسٹ (آئی ایس) جیسے مسلح گروہوں سے لڑنے میں مصروف ہے اور بعض اوقات افغان ایلیٹ یونٹ کے ساتھ بھی میدان میں کام کرتے ہیں۔

نیکولسن نے کہا کہ جب امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ، افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بنانے کا فیصلہ کریں تو انھیں گزشتہ 15 سالوں سے جاری شدید تنازعات کے پہاڑ کو ختم کرنے کے لیے افغان فورسز کی تیاری کے لیے مزید مشیروں کی ضرورت کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔

کانگریس کی ایک تنظیم سیگار کے مطابق ایک سال قبل 72 فی صد کے مقابلے میں دوسال کے دوران اکثر بین الاقوامی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان فورسز کا کنٹرول ملک کے صرف 57 فی صد خطے پر ہے۔

سیگار کے اعداد وشمار کے مطابق افغان فورسز کے کنٹرول میں افغانستان کا صرف 57 فی صد علاقہ ہے—فوٹو:رائٹرز
سیگار کے اعداد وشمار کے مطابق افغان فورسز کے کنٹرول میں افغانستان کا صرف 57 فی صد علاقہ ہے—فوٹو:رائٹرز

افغان اسپیشل فورسز خطے کی بہترین فورس

افغانستان میں اپنی مدت پوری کرکے واپس جانے والے امریکی ترجمان برگیڈیئر جنرل چارلس کلیولینڈ کا کہنا تھا کہ افغان اسپیشل فورسز 'خطے کی بہترین فورس تھی لیکن سال کے اختتام پر انھیں پھیلا دیا گیا تھا اور انھیں بہت کام کرنے کو کہا گیا تھا'۔

افغان اسپیشل فورسز کو شمال سے جنوب تک بڑی کارروائیاں کرنا پڑتی ہیں—فوٹو:رائٹرز
افغان اسپیشل فورسز کو شمال سے جنوب تک بڑی کارروائیاں کرنا پڑتی ہیں—فوٹو:رائٹرز

کلیولینڈ کےمطابق نیٹو بھی فوجی جوانوں کو مزید موثر اور ایلیٹ یونٹ سے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مدد کی کوشش کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عام فوجیوں کو کام کے معاملے میں اسپیشل فورسز کے مقابل لانا اصل ہدف ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ یہ فوجی بغیر کسی غلطی کے آپریشن کرنے کے قابل ہوجائیں'۔