کیا واقعی مریخ پر آلو اگائے جا سکیں گے؟

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2017
تجربہ کرنے والی ٹیم میں پیرو کے سائنسدان ڈیوڈ رمائرز بھی شامل تھے—فوٹو: اے پی
تجربہ کرنے والی ٹیم میں پیرو کے سائنسدان ڈیوڈ رمائرز بھی شامل تھے—فوٹو: اے پی

لیما: سائنسدان جنوبی امریکی ملک پیرو کے دارالحکومت کے قریب مریخ سے مطابقت رکھنے والی زمین پر کئی ماہ کی کوششوں کے بعد بالآخر آلو اگانے میں کامیاب ہوگئے۔

سائنسدانوں نے دعویٰ کیا کہ اس تجربے کے بعد مریخ پر آلو اگانے کی راہ ہموار ہوگئی، تجربے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مریخ پر بھی آلو اگائے جا سکتے ہیں۔

سائنسدانوں نے پیرو کے دارالحکومت لیما کے قریب جس تجربہ گاہ میں آلو اگانے کا کامیاب تجربہ کیا، اسے مریخ جیسا بنایا گیا تھا، تجربہ گاہ کو فرج کی شکل جیسا تیار کرکے اسے مریخ جیسی سورج کی روشنی، آکسیجن اور ہوا فراہم کی گئی۔

برطانوی اخبار’دی ٹیلی گراف‘ کے مطابق اس تجربہ گاہ میں مریخ کی طرح نقطہ انجماد سیکڑوں درجے نیچے رکھ کر، کاربن مونو آکسائیڈ کی بلند ترین سطح کے ساتھ ہوا کے دباؤ کو 19 ہزار 700 فٹ کے برابر رکھا گیا، اس تجربہ گاہ میں رات و دن کے اوقات میں ایک ہی طرح کی روشنی گزاری گئی، جو مریخ پر سورج کی روشنی کی مقدار کے برابر تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'مریخ پر مرنے کیلئے تیار ہو کر جائیں'

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے تعاون سے تجربہ کرنے والے سائنسدانوں کی ٹیم میں پیرو یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدان بھی شامل تھے۔

سائنسدانوں نے آلو بنانے کا تجربہ گزشتہ برش شروع کیا تھا، جو کئی ماہ کی کوششوں کے بعد پورا ہوا۔

تجربے میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مریخ جیسے مقام پر آلو اگانے کی کوشش نہ صرف مستقبل میں مریخ پر تجربات میں مددگار ثابت ہوگی، بلکہ اس سے دنیا کے ان خطوں میں بھی آلو تیار کرنے کی راہ ہموار ہوئی جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔

اس تجربے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بھی مریخ پر آلو اگائے جاسکتے ہیں، کیوں کہ سائنسدانوں نے جو تجربہ کیا وہ مصنوعی مریخ جیسی تجربہ گاہ تھی۔

مزید پڑھیں: 'مریخ پر زندگی کا ماحول موجود ہے'

اب خیال کیا جا رہا ہے کہ سائنسدان دوسرے مرحلے میں اس تجربہ گاہ سے کہیں زیادہ مختلف سخت، پھتریلی زمین پر مصنوعی تجربہ گاہ پرآلو اگانے کا تجربہ کریں گے، کیوں کہ مریخ پر پتھروں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

سائنسدانوں نے اس تجربے کے لیے پیرو کا اس لیے انتخاب کیا، کیوں کہ یہاں 7 ہزار سال قبل آلو کی مقامی پیداوار ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ پیرو سمیت جنوبی امریکا کے دیگر ممالک جن میں بولیویا اور ایکواڈور شامل ہیں، وہاں آلوؤں کی 4 ہزار اقسام پائی جاتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں