کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اللہ ڈنو خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا۔

عدالت عالیہ نے حکم جاری کیا کہ قائم مقام آئی جی عبدالمجید دستی فوری طور پر عہدہ چھوڑدیں اور اے ڈی خواجہ اپنے عہدے کا چارج دوبارہ سنبھال لیں۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے پاکستان ادارہ برائے مزدور، تعلیم و تحقیق (پی آئی ایل ای آر) کے سربراہ کرامت علی کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر سماعت کی۔

لیبر رہنما نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے اے ڈی خواجہ کی برطرفی پر حکم امتناع کے باوجود سندھ حکومت نے انہیں عہدے سے ہٹا کر توہین عدالت کی ہے۔

ادارے کے عہدیدار فیصل صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ کرامت علی نے اپنی پٹیشن ہفتہ (یکم اپریل) کو دائر کی تھی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کیس کی آئندہ سماعت 6 اپریل کو ہوگی اور عدالتی حکم کے مطابق آئندہ سماعت تک سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے دریافت کیا کہ کیا آئی جی کو ہٹانے سے پہلے یا بعد میں سندھ ہائیکورٹ کو بتایا گیا کہ انہیں ہٹانا کیوں ضروری ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ آئی جی سندھ کا تقرر پولیس ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت کیا جاتا ہے اور یہ سندھ حکومت کا استحقاق ہے۔

تاہم عدالت نے جب ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کابینہ سے مشاورت اور منطوری کے بعد آئی جی سندھ کو ہٹایا گیا تو ایڈووکیٹ جنرل کا جواب نفی میں تھا۔

عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے واضح عدالتی حکم امتناع کے باوجود آئی جی کو ہٹایا جبکہ حکومت کے تمام اختیارات صرف کابینہ کے ذریعے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ آئی جی سندھ کو ہٹانے کا اختیار کابینہ کے ذریعے استعمال نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ دو روز قبل سندھ حکومت نے آئی جی سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے اسلام آباد کو خط لکھا تھا۔

مزید پڑھیں: عبدالمجید دستی نےقائم مقام آئی جی سندھ کا عہدہ سنبھال لیا

حکومت سندھ کی جانب سے وفاقی حکومت کو لکھے گے خط میں عہدے کے لیے سردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔

اس خط کے بھیجے جانے کے اگلے ہی روز حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید کو قائم مقام انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ مقرر کردیا تھا۔

پیپلز پارٹی کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے آئی جی سندھ کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

مولا بخش چانڈیو کا کہنا ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق آئین دیتا ہے اور وہ فیصلہ ضرور چیلنج کریں گے۔

اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا

خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔

محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ جماعت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو (اے ڈی) خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں