سرگودھا کی درگاہ میں 20 افراد کے بہیمانہ قتل کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مریدوں کے اعتقاد اور واقعہ کے مرکزی ملزم نام نہاد پیر کے مقاصد نے کئی حساس سوالات کو جنم دیا ہے۔

پیر (3اپریل) کے روز پولیس نے دن کا بڑا حصہ ہجوم کو درگاہ علی محمد قلندر میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے گزارا، چک 95 شمالی کے علاقہ مکین اس مقام کو دیکھنے کے لیے پرتجسس تھے جہاں 3 خواتین سمیت 20 افراد کو سفاک طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بعد ازاں درگاہ کے متولی نے جرم کا اعتراف کیا کہ قتل کا یہ سلسلہ جمعے اور ہفتے کے دن جاری رہا تھا۔

ڈان نے کئی مقامی افراد سے واقعے کے متعلق بات چیت کی، کچھ نے عبدالوحید کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے ’جعلی‘ پیر قرار دیا، دیگر کا کہنا تھا کہ عبدالوحید جیسا 55 سالہ ادھیڑ عمر شخص، 20 افراد کو نہیں مار سکتا، مرنے والوں میں نوجوان افراد بھی شامل تھے جنہوں نے یقیناً خود کو بچانے کی کوشش کی ہوگی، بشرطیکہ انہیں کسی نفسیاتی جال میں نہ پھانسا گیا ہو یا نشہ آور اشیاء نہ دی گئی ہوں۔

چک 90 شمالی کے ایک رہائشی محمد اسماعیل نے ڈان سے بات چیت میں خود مریدوں کو ہی ان کی 'قسمت کا ذمہ دار' قرار دیا۔

محمد اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’جعلی پیر کی اندھی تقلید میں ان عورتوں اور مردوں نے اپنے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک برتنے کی اجازت دی‘۔

انہوں نے مزید بتایا ’خالد جٹ نامی ایک مقتول میرا دوست تھا، جب میں نے اسے کہا کہ وہ اس مشکوک شخص سے ملنا چھوڑ دے تو وہ مجھ سے ناراض ہوگیا اور مجھ سے ملنا ترک کردیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سرگودھا: ’قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا‘

اسماعیل کے مطابق چونکہ ایک پولیس کانسٹیبل، سابق ڈی ایس پی کا بیٹا اور علاقے کا بااثر شخص محمد گلزار عبدالوحید کے ساتھیوں میں شامل تھے لہذا اہل علاقہ میں سے کسی نے بھی درگاہ میں جاری ’مشکوک‘ سرگرمیوں کی شکایت درج کرانے کی ہمت نہیں کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آس پاس کے رہائشی جانتے تھے کہ عبدالوحید اپنے مریدوں کے گناہ دھونے کے لیے کیا طریقہ استعمال کرتا ہے، وہ انہیں برہنہ کرکے لاٹھی سے مارتا تھا‘۔

چک 95 شمالی کے اکرام احمد کے مطابق ’وہ متاثرین کے ردعمل کو دیکھ کر حیران ہیں، اہل علاقہ میں سے جو گھرانے متاثرین میں شامل ہیں وہاں بہت کم سوگ دیکھنے کو ملا‘۔

کیا اس کی وجہ کسی قسم کا خوف ہے؟

اس حوالے سے مقامی افراد نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اکرام احمد کا کہنا تھا کہ ایک ناقابل فہم عقیدے کے مطابق مانا جاتا ہے کہ اپنے منتخب مریدوں میں سے زندگی کی آخری رمق نچوڑ لینے کے بعد عبدالوحید کے اس عمل سے وہ افراد واپس زندہ ہوجائیں گے۔

دو ایکڑ رقبے پر محیط یہ درگاہ سبزے میں گھری ہوئی ہے، یہ علاقے میں موجود دیگر کئی درگاہوں میں سے ایک ہے، جسے 2 سال قبل ایک مقامی زمیندار نے تعمیر کرایا تھا اور مرکزی مشتبہ شخص عبدالوحید کو 8 گائیں اور چند بکریوں سمیت تحفے میں دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سرگودھا : درگاہ کے متولی کے ہاتھوں 20 افراد قتل

زمیندار نے اس مقام پر 5 کمرے بھی تعمیر کروائے تھے تاکہ وحید کے پاس آنے والے لوگوں کے لیے سہولت فراہم کی جاسکے تاہم اس واقعے کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ زمیندار گلزار بھی قتل کیے گئے افراد میں شامل ہے۔

واقعے میں زندہ بچ جانے والے 4 زخمیوں میں سے ایک محمد کاشف کا کہنا ہے کہ اسے اندازہ نہیں کہ وحید نے انہیں اس طرح کیوں مارا۔

محمد کاشف کے مطابق ’اس سے پہلے بھی مرشد گناہوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے مجھے کمر پر مار چکے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے جب انہوں نے اپنے مریدوں کے سر پر وار کیا‘۔

ایک اور زخمی محمد توقیر نے بتایا کہ ’پیر صاحب کسی بات پر جلال میں آگئے تھے، اس لیے انہوں نے سب کو سروں پر مارنا شروع کردیا‘۔

یہ دونوں زخمی افراد سرگودھا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار محمد مہاور نے ڈان کو بتایا کہ واقعہ کا علم پولیس کو ہونے کے بعد موقع پر سب سے پہلے پہنچنے والی ایمبولنس ان کی تھی۔

محمد مہاور کے مطابق ’کمروں میں برہنہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں، جنہیں ہم ہسپتال لے کر گئے، ان میں سے 19 افراد کو مردہ قرار دے دیا گیا جبکہ ایک خاتون بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں‘۔

علاقے کے پولیس افسر ذوالفقار حمید نے ڈان کو بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا ’عبدالوحید نے بتایا کہ اس نے اپنے مریدوں کو اس لیے مارا تاکہ انہیں ’نئی زندگی‘ دی جاسکے، ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ افراد کو مارنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسے مار کر درگاہ کا قبضہ حاصل کرنا چاہتے تھے، اسی لیے اس نے سب سے پہلے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے پولیس کانسٹیبل آصف کو مار ڈالا‘۔

پولیس افسر کے مطابق تمام مریدین نے ’بے انتہا عقیدت‘ کی وجہ سے خود کو عبدالوحید کے حوالے کیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدائی معلومات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وحید نے ایک ایک کرکے اپنے مریدوں کو درگاہ پر بلایا، جب وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک شخص کو قتل کردیتا تو دوسرے کو بلاتا اور یہ سلسلہ 2 روز تک جاری رہا۔

خیال رہے کہ 20 افراد کے قتل میں ملوث درگاہ کا متولی ملزم عبدالوحید چند سال قبل مستعفی ہونے سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا تاہم اس کے بعد اس نے اپنی تمام توجہ درگاہ میں ہونے والی سرگرمیوں پر مرکوز کردی تھی۔


یہ خبر 4 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ali Apr 04, 2017 11:03am
this shows the illiteracy in our country,, where a psychopath beat and kill people only to cleansing their sins ?? what a shame, I don't see a single condemnation from religious scholars for this,, yes we will se lots of tv programs like Qutab online etc for this but a strong condemnation for this brutal act
M. Sohail Apr 04, 2017 12:42pm
Hairan hon dil ko, keh piton jigr ko mein. Jahalat ki inteha hai.