نئی دہلی: تجزیہ کاروں اور سفیر قرار دیتے ہیں کہ اگر ہندوستان ویٹو کے اختیار کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرلیتا ہے، تو یہ کوئی عام کامیابی نہیں ہوگی، کیونکہ نئی دہلی اس وقت دلائی لامہ کی مدد سے چین کو تنگ کرنے میں مصروف ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ایک روز قبل ہی نئی دہلی کے لیے سیکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کا خوش کن اشارہ دے چکی ہیں، تاہم اس کے امکان انتہائی کم ہیں۔

چین نے خبردار کیا تھا کہ بھارت تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کی متنازع علاقے ارونا چل پردیش میں میزبانی سے باز رہے، کیونکہ مشرقی ہمالیہ کے دامن میں واقع یہ علاقہ دراصل جنوبی تبت ہے، اور تبت پر چین ملکیت کا دعویدار ہے۔

تاہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے کر بھارت چین سے اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔

دلائی لامہ کے اروناچل پردیش کا دورہ کرنے کے بعد بھارتی میڈیا پر وزیراعلیٰ پیما خاندو کے بیان نے کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’بھارتی سرحد چین نہیں بلکہ تبت سے ملحق جبکہ بھارت تبت کو چین کا خود مختار حصہ تصور کرتا ہے‘۔

خیال رہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری کی بھی مخالفت کرچکا ہے، بھارت کا دعویٰ تھا کہ یہ راہداری جموں اور کشمیر کے متنازع حصے سے گزرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے لیے پرامید سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت امید کرتا ہے کہ نئے ارکان کو بھی مستقل رکن کی حیثیت سے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو پہلے سے موجود اراکین کو حاصل ہیں۔

راجیو سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ چار مستقل اراکین امریکا، برطانیہ، فرانس اور روس کی حمایت بھی حاصل ہے، پانچویں رکن ملک چین نے بھی اب تک ‘عوامی طور پر بھارت کی مخالفت نہیں کی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں پرامید ہوں اگر اس بار نہیں تو اگلی بار لیکن بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن ضرور بنے گا‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا انڈیا کو ’ویٹو‘ کا اختیار بھی ہوگا، سشما سوراج کا کہنا تھا کہ بھارت ان تمام ذمہ داریوں، ضوابط اور استحقاق کا خواہشمند ہے جو دیگر مستقل اراکین کو حاصل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نئے اور پرانے اراکین میں کوئی تفریق نہیں چاہتے، ہم دو درجے نہیں چاہتے، کہ یہ پہلا درجہ ہے اور یہ مستقل اراکین کا دوسرا درجہ ہے‘۔

بھارتی میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت نہ صرف سلامتی کونسل کی توسیع بلکہ کونسل میں اصلاحات کے لیے بھی سفارتی کوششوں میں مصروف ہے، بھارت چاہتا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل اراکین کی تعداد میں اضافہ ہو۔

ایوان میں بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور برطانیہ کی جانب سے نئے اراکین کو ویٹو اختیارات دینے کے فیصلے پر مخالفت سامنے آئی تھی، فرانس اس کے حق میں تھا جبکہ چین اور روس نے اس حوالے سے اپنا کوئی ردعمل پیش نہیں کیا۔

سشما سوراج کے مطابق مختلف ممالک کی حکومتوں کے مذاکرات کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مباحثہ جاری ہے جبکہ بھارت اور دیگر اصلاحات کے حامی ممالک دستاویزی طور پر مذاکرات آگے بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔


یہ رپورٹ 7 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں