کراچی: جامعہ کراچی کے پروفیسرز کا ماننا ہے کہ 'ایک بحث جاری ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جانا چاہیے یا نہیں، متعدد چیزیں ایسی ہیں جو اسے تبدیل کرسکتی ہیں جن میں فوج کی تعیناتی اور اس کا وہاں سے ہٹایا جانا، لیکن یہ ایک خلاء پیدا کردے گا اور یہ ایسا خلاء ہوگا جو دہشت گردوں کی جانب سے بہت جلد پُر کیا جاسکتا ہے'۔

روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر سرفراز خان نے جامعہ کراچی کے ڈپارٹمنٹ 'انٹر نیشنل ریلیشنز' کی جانب سے منعقد ایک سمینار میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا۔

اس موقع پر ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ فاٹا تقریبا ایک خود مختار حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسی وجہ سے یہ اسمگلروں، منشیات فروشوں اور طالبان سمیت دیگر کیلئے محفوظ پناہ گاہ رہا۔

انھوں نے کہا کہ اب اس پر ایک بحث ہورہی ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جانا چاہیے یا نہیں، متعدد چیزیں ایسی ہیں جو اسے تبدیل کرسکتی ہیں جن میں فوج کی تعیناتی اور اس کا وہاں سے ہٹایا جانا، لیکن یہ ایک خلاء پیدا کردے گا اور یہ ایسا خلاء ہوگا جو دہشت گردوں کی جانب سے بہت جلد پُر کیا جاسکتا ہے'۔

ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا تھا کہ 'اپنے محل وقوع کے باعث فاٹا نے ہمیشہ تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'افغانستان اور پاکستان کے درمیان انتہائی مختصر علاقہ ہے جو 7 پولیٹیکل ایجنسیز پر مشتمل ہے، جن میں باجوڑ، مہمند، اوکرزئی، خیبر، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں، یہ علاقہ 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 ویں صدی کے آغاز میں برطانوی سلطنت اور روس کے درمیان ایک بفرزون تھا، یہ دونوں ممالک اس وقت کی سپر پاورز تھیں'۔

یہ بتایا گیا کہ برطانیہ نے ہندوستان کے تو بیشتر علاقوں پر قبضہ کیا اور انھیں آباد کیا تاہم فاٹا پر قابو نہ پاسکے۔

روس نے 1971 میں برطانوی سلطنت کو ختم ہوتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے سوشلزم کیلئے راستہ نکالا، جبکہ پاکستان کے قیام میں آنے کے بعد اس نے خود بھی فاٹا میں برطانوی انداز ہی اپنایا۔

پروفیسر کا کہنا تھا کہ ' پاکستان میں یہ بحث ہوتی آئی ہے کہ افغانستان نے ڈیورنڈ سرحد کو تسلیم نہیں کیا، کچھ کا کہنا ہے کہ افغانستان، بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی دو جنگوں میں افغانستان نے کبھی بھی مداخلت نہیں کی یا پاکستان کو مدد کی پیش کش نہیں کی'۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ 'تاہم یہ سچ ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی کا جواز تھا کہ برطانیہ یہاں قدم نہیں جما سکا، وہاں کے لوگوں میں تعلیم اور مہارت کا فقدان ہے، ان کی فوج مختصر اور اس میں ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کا فقدان ہے، اور اسی لیے پاکستان کی افواج اور افغانستان کی افواج میں کوئی موازنہ نہیں'۔

ایک نسل کی ہجرت

انھوں نے مزید کہا کہ قدیم زمانے کے وقت سے، جیسا کہ غزنویوں اور خلجیوں کے دور حکومت میں، اور اب بھی یہ لوگ اپنے مویشیوں کے ہمراہ ہجرت کرتے ہیں، یہ بیشتر افغانستان کے علاقوں سے پاکستان آتے ہیں ایسا 1980 میں بھی ہوا جب پاکستان پر ایک فوجی حکمران مسلط تھا اور اس وقت 30 لاکھ افغانی پاکستان میں داخل ہوئے۔

پروفیسیر نے بتایا کہ 'کیونکہ اس وقت مارشل لاء نافذ تھا، ہمارا آئین معطل تھا اور ضیاء الحق کے الفاظ قانون تھے، اس نے کہا کہ وہ مہاجرین مکہ ہیں اور ہم انصارانِ مدینہ، اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ پاکستان خود بھی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا تھا جو یہاں کے بیشتر لوگوں کیلئے موزوں تھی'۔

'علاوہ ازیں، فاٹا کو تسلیم نہیں کیا گیا اور وہ بغیر قانون کے علاقہ ہی شمار ہونے لگا، برطانیہ نے انھیں یہ درجہ دیا تھا اور پاکستان اسے جاری رکھنا چاہتا تھا، تو افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد یہاں طالبان موجود تھے اور ہر قسم کے دیگر شدت پسند لیکن ان کے یہاں دوبارہ آبیاری کی گئی'۔

پروفیسر نے کہا کہ 'جب ہم پروان چڑھے تو ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ہیروئن اور کلاشن کوف کیا ہے، ہمیں اس چیز کی بھی پروا نہیں ہوتی تھی کہ آیا ہمارے ساتھ کوئی شیعہ، سنی، دیوبندی، وہابی ہی بیٹھا ہو، لیکن اب ہم اس کے بارے میں پُر تجسس ہوتے ہیں اور ان چیزوں کا خیال رکھتے ہیں، اور یہ تمام چیزیں ہم میں اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئیں جب افغانی فاٹا کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے'۔ اس کے بعد پھر 9 ستمبر کا واقع ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نہ تو افغانستان سے اور نہ ہی فاٹا سے کوئی اس واقعہ کا ذمہ دار تھا، وہ عرب تھے لیکن ان کا ماننا تھا کہ انھیں فاٹا میں ٹریننگ دی گئی تھی، حقیقت میں، 9 ستمبر کے واقعے کے بعد فاٹا دنیا کی نظروں کے سامنے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر سامنے آیا'۔

انھوں نے وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارشات کا حوالہ دیا جس میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی افواج نے انھیں یہاں سے نکالنے کیلئے متعدد آپریشنز کیے تھے، بہت سی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ فاٹا کیلئے اصلاحات کا پیکج تیار کیا جاسکے'۔

ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا تھا کہ 'اس اقدام کے متعدد مضمرات ہیں، حال ہی میں پاکستان کی سینیٹ میں فاٹا کو ایک نشست بھی دی گئی ہے، اگر فاٹا کو پاٹا (صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ) قرار دے دیا جاتا ہے تو وہ یہ نشست کھو دیں گی کیونکہ وہ اب خیبرپختونخوا کا حصہ ہو جائے گا، تاہم پاٹا کے قیام میں آنے کے بعد خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی موجودہ 23 نشستوں میں تبدیلی آئے گی'۔

انھوں نے کہا کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے لوگوں کے درمیان مشترک زبان، ثقافت اور تعلقات قائم ہیں جس کی وجہ سے علاقے کو ضم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کیونکہ اس صوبے اور اس علاقے میں ثقافتی تنازع موجود نہیں۔

آخر میں پروفیسر کا کہنا تھا کہ جیسا کہ پنجاب اور سندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے کوئی ریفرنڈم نہیں ہوا تھا اس لیے فاٹا کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے بھی ریفرنڈم کی ضرورت نہیں۔

انھوں نے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے ریفرنڈم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان میں ریفرنڈم کا ماضی کچھ اچھا نہیں ہے'۔

یہ رپورٹ 18 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں