وہ پاکستانی بزرگ جن سے بچوں نے منہ موڑ لیا

18 اپريل 2017
عابدہ جن کی فیملی امریکا بس چکی ہے اور وہ انمول زندگی اولڈ ایج ہوم میں رہتی ہیں — فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار
عابدہ جن کی فیملی امریکا بس چکی ہے اور وہ انمول زندگی اولڈ ایج ہوم میں رہتی ہیں — فہیم صدیقی / وائٹ اسٹار

کراچی: آدھی رات کو کسی لوہے کی چیز کی دیوار کو کھرچنے کی آواز کسی شخص کی لعن طعن دینے کی آواز کے ساتھ گونجتی "کہاں ہو تم احمقوں؟" چند لائٹیں روشن ہوتی ہیں اور تیزی سے اٹھتے قدموں کی آواز آتی ہے۔ دو نوجوان، جن میں سے ایک کے پاس بالغ افراد کے لیے استعمال ہونے والا ڈائپر جبکہ دوسرے کے پاس پانی اور دیگر استنجہ کا سامان ہے، بڑی تیزی سے برا بھلا کہنے والے شخص کی مدد کو آتے ہیں۔

نارتھ ناظم آباد میں واقع انمول زندگی نامی اولڈ ایج ہوم کے بانی اور چیئرمین، امانت پرویز کہتے ہیں ’یہ عمر رسیدہ شخص خود کو صاف نہیں کر پاتے، اس لیے یہ مایوس ہیں۔ یہ اس لیے بھی غصے میں ہیں کیونکہ ان کے گھر والوں نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔ ان کا غصہ قابل فہم ہے۔’

اس جگہ 25 افراد مقیم ہیں، جن میں سے 5 خواتین ہیں۔ پرویز کہتے ہیں کہ، ’چند افراد سے تو ان کے گھروالوں یا جاننے والوں نے ملنا ہی چھوڑ دیا ہے، دیگر سے کوئی کبھی کبھار ملنے آ جاتا ہے۔’ پرویز اور ان کا خاندان بھی یہیں مقیم ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہم ان کا کل اثاثہ ہیں۔’ یہ اولڈ ہوم 400 مربع گز رقبے پر مشتمل ہے تاہم امانت پرویز اس کے مالک نہیں بلکہ وہ وہ اس گھر کے لیے ماہانہ 60 ہزار کرایہ ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں زندگی کافی تیز بن چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ پورے کراچی میں ایسے مراکز کھولے جا رہے ہیں۔ شوہر، بیوی اور بچوں کے کام یا پڑھائی کے سلسلے میں باہر جانے کی وجہ سے گھر خالی ہوجاتا ہے، جس وجہ سے عمر رسیدہ والدین یا نانا دادا، نانی دادی کا خیال رکھنے کے لیے وقت ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔

امانت پرویز ایک فزیو تھراپسٹ ہیں جنہوں نے 2011 میں سندھ میڈیکل کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد، گھر گھر جاکر لوگوں کو مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتے ہیں ’بہادر آباد میں ایک گھر میں ایسے ہی تھراپی دورے کے دوران میری ملاقات زرینہ بی بی سے ہوئی۔ وہ کافی عمر رسیدہ تھیں اور بستر سے لگی تھیں مگر ان کا دماغ کافی تیز تھا۔ انہوں نے مجھ سے انگریزی زبان میں بات کی۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح جیسی لگ رہی تھیں۔’ یہی خاتون ان کی پہلی کلائنٹ تھیں؛ انمول زندگی اولڈ ایج ہوم کے سائن بورڈ پر بھی اسی خاتون کی تصویر لگی ہے۔

امانت پرویز باقاعدگی سے عمر رسیدہ خاتون کے گھر جاتے۔ ایک دن ان کے بیٹے نے پرویز سے کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے کو کہا جہاں وہ خاتون اپنی زندگی کے آخری دن گزار سکیں کیونکہ وہ انہیں اپنے گھر پر رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ پرویز نے بتایا " میں انہیں اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا مگر میرے والد نے مجھے اس خاتون اور ایسے دیگر افراد کے لیے زیادہ بہتر کام کرنے کو کہا جنہیں ان کے خاندان اور سماج دھتکار دیتے ہیں۔ اسی وقت میں نے اس این جی او کو قائم کرنے کا سوچا۔’

پرویز کہتے ہیں ’میں نے یہ جگہ کرایے پر لی مگر اس کا ایڈوانس میرا پورا بجٹ ہڑپ کرگیا۔ میرے پاس فرنیچر خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رہی۔ میرے پراپرٹی کنسلٹنٹ میری مدد کو آئے۔ ان سے میری قریبی جان پہچان تھی کیونکہ میں ان کے بھائی کا بھی فزیوتھراپسٹ تھا۔ انہوں نے مجھے پرانا فرنیچر اور چھت کے پنکھے عطیہ کیے۔ اب تو اپنے لوگوں کو یہاں چھوڑنے والے بھی ہم سے تعاون کرتے ہیں— کیونکہ دیگر ہم سے تعاون نہیں کرتے۔ پرانے کپڑوں یا کھانے کی صورت میں عطیات بھی ایک زبردست مدد ثابت ہو گی۔"

جگہ کی تنگی کے باعث، ایک کمرے میں چار افراد کو رہنا پڑتا ہے۔ پرویز، ان کی اہلیہ، ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو جگہ صاف ستھری رکھنے میں کافی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ ان کی اہلیہ اور بیٹی باورچی خانے کی بھی انچارج ہیں۔ ان کی اہلیہ شمیم امانت کا کہتی ہیں ’ایک ہی وقت میں 60 چپاتیاں پکاتی ہوں۔ اگر انہیں کھانا پسند نہیں آتا تو مجھے ان کی شکایاتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ مجھے میرے نام سے پکارنے سے انکار کرتے ہوئے پر وہ مجھ پر چلاتے ہیں اور ڈانٹتے ہیں۔ وہ مجھے موٹی پکارتے ہیں۔ ایک بار جب میں ایک خاتون کو نہلا رہی تھی کہ اس خاتون نے میری آنکھوں کو کھرچ دیا اور مجھے جلدی سے ایمرجنسی روم کا رخ کرنا پڑا۔’

ضروری نہیں کہ یہاں کے تمام رہائشی جذباتی طور پر بے قابو ہوں۔ مثلاً، یہاں شیزو فیرنیا میں مبتلا ایک سابق ٹیچر مدحت ہیں اور ایک سابق بینکر یوسف جمال ہیں جو ڈپریشن سے گزر رہے ہیں۔ پرویز کہتے ہیں ’زرینہ قریباً 60 برس کی ہے مگر وہ خود کو 20 سال کی سمجھتی ہیں۔ ایسے دیگر افراد بھی ہیں، جیسے 50 سالہ خالد، جو پانچ سالہ بچے کی طرح پیش آتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم ان کے والدین ہیں۔ انہیں اپنے لیے ٹافی خریدنا بہت پسند ہے۔’

پرویز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب نے اپنی دوائیں وقت پر کھالی ہیں، جس کے پیسے بھی وہ خود ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہم زکوۃ بھی استعمال کر سکتے ہیں مگر ہمیں عیسائی جان کر، صرف چند ہی لوگ ہمیں زکوۃ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں — حالانکہ یہاں موجود تمام عمر رسیدہ افراد مسلمان ہی ہیں۔ فنڈز کی تو کمی ہے مگر ہم اپنے تھوڑے وسائل کے اندر ہی ان اداس انسانوں کو خوش رکھنے کے لیے سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے چند، جیسے عابدہ بی بی، جن کی پوری فیملی امریکا میں بس چکی ہے اور وہ عابدہ بی بی کو ہمارے پاس چھوڑ گئے، انہیں مخصوص کھانے ہی پسند ہیں۔ انہیں پیزا، بریانی، دہی بڑے اور بن کباب پسند ہیں، لہٰذا ہم ان کے لیے یہ سب اور دیگر کے لیے ان کی پسند کے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہیں چڑیا گھر اور ساحل سمندر گھمانے کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے۔’

پرویز مزید بتاتے ہیں کہ، ’حال ہی میں، عابدہ بی بی نے اپنےبالوں کو رنگوانے اور مصنوعی بتیسی لگوانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے ان کی دونوں خواہشیں پوری کیں، مجھے یقین ہے ایک بار بتیسی منہ لگ جانے کے بعد وہ 16 سال سے بھی کم عمر دکھائی دیں گی۔’ پرویز جب اس طرح چھیڑتے ہیں تو وہ اپنا چہرہ دوپٹے میں چھپاتی ہیں۔

اب بھی کبھی کبھار شمیم مشتعل افراد کی جانب سے چلانے کی وجہ سے تنگ آ جاتی ہیں اور اپنے اور فیملی کے لیے ایک خوبصورت صاف ستھرے گھر کی خواہش کرنے لگتی ہیں۔ پرویز کہتے ہیں کہ، ’لیکن پھر میں اسے یاد دلاتا ہوں کہ ایک خدا ہے جو ہم سب کو دیکھ رہا ہے، اور اس نے ہمارے لیے دوسرے جہاں میں ایک خوبصورت اور پرامن جگہ مختص کر رکھی ہے۔’

یہ رپورٹ 18 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں