لمحہ فکریہ!

19 اپريل 2017
یونس خان اور مصباح الحق کی موجودگی میں بیٹنگ لائن کی ناقص کارکردگی انتہائی تشویشناک ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
یونس خان اور مصباح الحق کی موجودگی میں بیٹنگ لائن کی ناقص کارکردگی انتہائی تشویشناک ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

دورہ ویسٹ انڈیز کا آغاز ہوا تو پاکستان کرکٹ ٹیم کے حامی و ناقدین دونوں ہی اس بات پر متفق نظر آئے کہ قومی ٹیم اہم کھلاڑیوں سے محروم ویسٹ انڈین ٹیم کو کھیل کے تمام شعبوں میں آؤٹ کلاس کرتے ہوئے تینوں فارمیٹس میں باآسانی سرخرو ہو گی۔

سیریز شروع ہوئی اور ٹی20 سیریز میں اوسط درجے کی ٹیم سے ایک میچ ہارنے پر عذر پیش کیا گیا کہ عالمی چیمپیئن ٹیم سے ہارے ہیں اس لیے پریشانی والی کوئی بات نہیں لیکن پھر ایک روزہ میچوں کی سیریز کے آغاز کے ساتھ ہی ویسٹ انڈین ٹیم کی ریکارڈ ساز فتح نے جہاں شائقین کرکٹ کو مایوسی میں مبتلا کیا تو دوسری جانب ٹیم کی شان میں قصیدے پڑھنے والوں کے منہ پر تالا لگا دیا۔

بہرحال اگلے میچوں میں بہتر کھیل پیش کر کے سیریز جیتنے پر ہمیشہ کی طرح تعریفوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہی تھا کہ ویسٹ انڈین پریذیڈنٹ الیون کی ٹیم نے ٹور میچ میں ’شاہینوں‘ کی شاندار کارکردگی اور دورے کے لیے تیاریوں کے راز سے پردہ اٹھا دیا۔

جی ہاں، بڑے بڑے ناموں اور القابات سے لیس پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم ٹور میچ کے لیے میدان میں اتری تو بے دانت کی شیر معلوم ہوتی تھی اور باؤلنگ و بیٹنگ دونوں ہی شعبوں میں میزبان ٹیم نے اپنے مہمانوں کی خوب تواضع کی۔

پہلے موجودہ دور میں پاکستان کے سب سے بہترین باؤلرمحمد عامر (ایسا سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید نے کہا جو اب ڈائریکٹر کرکٹ کے عہدے پر فائض ہیں)، حسن علی، محمد اصغر اور یاسر شاہ پر مشتمل باؤلنگ اٹیک نے 419 رنز دیے جس میں یاسر شاہ نے دو وکٹوں کیلئے 129 رنز دیے۔

چلیے حسن علی اور اصغر تو نووارد ہیں لیکن عامر اور یاسر شاہ کی موجودگی میں باؤلنگ لائن کا 400 سے زائد رنز دینا اور میزبان ٹیم کا 125 سے زائد اوورز کھیلنا بہت کچھ عیاں کر گیا۔

باؤلنگ کی بہترین کارکردگی کے بعد بیٹنگ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی اور پوری ٹیم 192 رنز پر ڈھیر ہو کر پویلین لوٹ گئی جس میں سوائے احمد شہزاد اور سرفراز احمد کے کوئی بھی بلے باز نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔

میزبان ٹیم چاہتی تو پاکستان کو باآسانی فالو آن کرا سکتی تھی لیکن انہوں نے پاکستان کو مزید بیٹنگ پریکٹس کا موقع نہ دیتے ہوئے خود اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور صرف دو وکٹیں گنوا کر 152 رنز بنائے اور میچ میں 379 رنز کی برتری حاصل کر کے کئی سوالات کو جنم دیا۔

یاد رہے کہ ویسٹ انڈیز کی دوسرے درجے کی ٹیسٹ ٹیم کے مقابلے میں یہ ٹیم بھی خاصی ناتجربہ کار تھی اور سوائے کیماروچ اور کیرن پاول کے بقیہ نو کھلاڑیوں میں سے کسی نے بھی ٹیسٹ ٹیم میں ویسٹ انڈین کی نمائندگی نہیں کی۔

اس کارکردگی کے ساتھ ہی سب سے بڑا سوال ٹیم سلیکشن پر کھڑا ہوتا ہے کہ آخر کس حکیم کے کہنے پر سمیع اسلم کو مشکل دوروں پر اچھی کارکردگی کے باوجود ڈراپ کیا گیا اور جواب پیش کیا گیا کہ ’ان کی فٹنس خراب ہے اور وہ کڑھائی کھاتے ہوئے پکڑے گئے‘۔

سمیع اسلم نے دورہ انگلینڈ، ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں اچھی کارکردگی کے بعد نیوزی لینڈ میں بھی متاثر کن کھیل پیش کیا تھا لیکن آسٹریلیا میں ایک سیریز ناکام ہونے پر انہیں بھی آزمائے ہوئے اوپنرز کی جوڑی میں ڈال دیا گیا اور ان کی جگہ شان مسعود کو کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ دورہ انگلینڈ سمیت گزشتہ سیریز میں باؤلنگ میں سب سے اچھی کارکردگی دکھانے والے سہیل خان کو بھی فٹنس کی بنیاد پر ٹیم سے باہر نکال دیا گیا حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انہیں اظہر محمود سے چپقلش پر ٹیم سے باہر کیا گیا اور جلد واپسی کی کوئی امید بھی مشکل ہی نظر آتی ہے حالانکہ فاسٹ باؤلر پاکستان سپر لیگ کے بعد اب پاکستان کپ میں بھی اپنی فٹنس اور فارم کا بھرپور ثبوت دے رہے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک محض اس بنیاد پر محمد عامر کو مستقل کھلاتے رہیں گے کہ وہ ایک انتہائی ’باصلاحیت باؤلر‘ ہے جبکہ دورہ انگلینڈ کے ذریعے ٹیم میں واپسی کے بعد سے وہ اپنی سابقہ خصوصیات سے بالکل عاری نظر آتے ہیں اور اعدادوشمار اس کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں۔

اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ باؤلر کرکٹ میں واپسی سے اب تک گیارہ ٹیسٹ میچوں میں صرف 28 وکٹیں لے سکے ہیں (جس میں کوئی فتح گر اسپیل یا کارکردگی شامل نہیں) جبکہ محدود اوورز کے میچوں میں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے اور ان کے ساتھی باؤلر وہاب ریاض کے حالات بھی کچھ ایسے ہی نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ’باصلاحیت باؤلر‘ پر مسلسل نظر کرم جاری ہے اور فٹنس کو بنیاد بنا کر جنید خان، سہیل خان اور راحت علی جیسے باؤلرز کے مستقبل سے کھیلنے کی روایت جاری ہے۔

یاسر شاہ کی بات کی جائے تو گزشتہ کچھ سیریز سے ان کی باؤلنگ بھی بے جان نظر آ رہی ہے اور ٹیسٹ سیریز میں اگر ان کی ناقص فارم جاری رہی تو باؤلنگ لائن کے معاملے پر تو نوشتہ دیوار ہی پڑھ لینا چاہیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کب تک انا اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے مستقبل سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے جس کی ماضی میں بھی کئی مثالیں موجود ہیں اور حکمت عملی سے عاری بورڈ مکمل مستعدی کے ساتھ اسی پالیسی پر کاربند نظر آتا ہے۔

ویسٹ انڈیز سے ٹور میچ ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی دونوں کے لیے ہی لمحہ فکریہ ہے خصوصاً اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ابھی اس ٹیم کو مصباح الحق اور یونس خان جیسے مضبوط کاندھے میسر ہیں اور اس کے باوجود یہ ٹیم اوسط درجے سے بھی خراب کھیل پیش کر رہی ہے اور دونوں کی ایک ساتھ رخصتی کے ساتھ ہی پیدا ہونے والا خلا پُر کرنا بورڈ کے متعلقہ حکام کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔

ٹور میچ میں پاکستان کی بیٹنگ کو تو اس بنیاد پر تھوڑی بہت چھوٹ دی جا سکتی ہے کہ اکثر بلے باز کافی عرصے سے کرکٹ نہ کھیلنے کے سبب فارم میں نہ تھے لیکن باؤلنگ کی موجودہ کارکردگی بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے اور اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس سلسلے میں فوری ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں ورنہ ون ڈے کے بعد ٹیسٹ میں بھی پاکستانی ٹیم کہیں نچلے نمبروں پر چہل قدمی کرتی نظر آئے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

bilal Apr 19, 2017 06:07pm
wahab riaz aur specially aamir par tanqeed karna bilkul drust ha... we have the bench of bowlers but dont know why they are giving chance to the specific bowlers.