’کلنکر جھیل بھی ہم گاؤں والوں کی طرح پیاسی ہے’
’کلنکر جھیل بھی ہم گاؤں والوں کی طرح پیاسی ہے’
مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب رواں سال کے آغاز میں سندھ کی کلنکر جھیل پر ایک جزوی طور پر ٹوٹی پھوٹی بتیلی (چھوٹی کشتی) پر میں بیٹھا تھا، اور مقامی ملاح اور کشتی کے کپتان میر حسن ملاح نے جھیل کے گرد موجود ریت کے ٹیلوں کی طرف اشارہ کیا۔ تھا اپنی سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا کہ ’یہ جھیل بھی ہم گاؤں والوں کی طرح ہی پیاسی ہے۔’
یہ خوبصورت جھیل سانگھڑ اور عمرکوٹ دونوں اضلاع کی حدود میں پھیلی ہے۔ یہ سانگھڑ کے قریب غلام نبی شاہ ٹاؤن سے شروع ہوتی ہے، جہاں بیراجی اور صحرائی زمینیں ملتی ہیں، اور ختم عمرکوٹ ضلع میں ہوتی ہے۔
کلنکر تک پہنچنے کے لیے، میں نے اپنے ابائی شہر عمرکوٹ سے ڈھورونارو، جو 30 کلومیٹرز دور واقع ایک دیہی شہر ہے، تک ایک گھنٹے کا سفر کیا۔ میں دو مقامی باشندوں سے ملا جو مجھے باخوشی جھیل تک لے جانے کے لیے تیار تھے۔ جھیل وہاں سے مزید 8 کلومیٹرز دور واقع گاؤں حاجی خمیسو راجڑ میں ہے۔
کلنکر جھیل مزید 7 جھیلوں کو ملاتی ہے جن میں مودھاکر، کھاروڑ، لون کھن، گرجی، بندو، سنہرو، اور بھروڑ شامل ہیں۔ اس جھیل کو دو ذرائع سے پانی حاصل ہوتا ہے، یا تو آس پاس کے بڑے بڑے زمینداروں کے کھیتوں کا استعمال شدہ پانی، یا پھر برساتی پانی اس جھیل کو وجود دیتا ہے۔
چونکہ برسوں سے تازہ پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، اسی لیے جھیل کا پانی کھارا اور نمکین بن چکا ہے، جو کہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے موزون نہیں۔ آبدیدہ آنکھوں سے میر حسن نے مجھے بتایا کہ کس طرح سے جھیل کو تازہ پانی مطلوب ہے کہ جس سے یہاں زیادہ مچھلیاں حاصل کی جا سکیں۔
جھیل سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے کہ جس سے ملاح ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔ وہ پکڑی گئی مچھلیوں کو بازار میں بیچ کر ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 200 روپے ہی کما پاتے ہیں۔
جھیل کے قریب ہی ایک تازہ پانی کی نہر ہے جو جھیل کی ضرورت پوری کر سکتی ہے، مگر حکومت نے ابھی تک نہر کو جھیل سے ملانے پر کوئی دھیان نہیں دیا ہے۔
گاؤں کے باسیوں کے دکھ صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتے۔ جب میر حسن نے بتایا کہ یہاں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے تو میں اس کی آنکھوں میں اداسیوں کا آسیب دیکھ سکتا تھا۔ پینے کے لیے استعمال کیا جانے والا زیر زمین پانی بھی کھارا بن چکا ہے۔
لوگوں کے پاس آلودہ پانی پینے کے سوا اب اور کوئی چارہ نہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ہینڈ پمپ نصب کیا گیا تھا مگر پورے گاؤں کے لیے ایک پمپ کافی نہیں جبکہ گاؤں کے باسی پمپ لگوانے کا خرچہ گاؤں والوں کے بس سے باہر ہے۔
دو دہائیاں پہلے، کلنکر ایک خوشحال جگہ تھی، نہ صرف یہاں پر مچھلیاں بے تحاشا تھیں بلکہ کنوؤں (جنہیں مقامی زبان میں تس کہا جاتا ہے) سے بھی میٹھا پانی حاصل تھا۔
آج، ارد گرد کے گاؤں کے 120 قریب خاندان اس جگہ کو خیرآباد کہہ چکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ گاؤں باسی بھی اپنی آبائی زمینوں کو چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں مگر انہیں یہ بھی تو پتہ نہیں اس جگہ کو چھوڑ کر آخر جائیں بھی تو جائیں کہاں۔
ایسے ہی ایک گاؤں کے باسی، غلام نبی ملاح نے مجھے بتایا کہ رواں سال کے اوائل میں سندھ کے وزیر برائے ثقافت، سیاحت و نوادرات نے اس گاؤں میں ایک سیاحتی مقام بنانے کے لیے کوئی موزون جگہ کی تلاش میں اس جگہ کا دورہ کیا تھا۔
اگر سیاحتی انفرا اسٹریچکر تعمیر کیا گیا تو بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے کلنکر جھیل کے سہارے زندگی کا چرخہ چلانے والے کئی گاؤں کے باشندوں کی پھوٹی قسمت بدل سکتی ہے۔
لیکن حکومت کو یہاں تعمیراتی کاموں کے معاہدے کرنے کے بجائے پہلے جھیل کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، تا کہ اس علاقے کے سب سے ضروری حصے، اس کے فطری ماحول کو محفوظ بنایا جا سکے اور لوگوں کو بہتر ذریعہ معاش ممکن ہو سکے۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ، اگر جھیل ہی اپنی خوبصورتی ہی کھو دے گی تو یہاں سیاحوں کا آنے کا جواز ہی کیا بچے گا؟
عبدالحلیم سومرو عمرکوٹ میں سماجی و انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں