خرم حسین ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
خرم حسین ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ان دنوں جہاں اس وقت قوم کی توجہ پاناما کیس فیصلے پر مرکوز ہے وہاں سرخیوں میں ایک دوسرا مسئلہ بھی اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی واپسی، جو تقریباً ایک دہائی سے ملک کو لاحق توانائی کے شدید بحران کی علامت ہے، اب یہی لوڈشیڈنگ 2018 میں مسلم لیگ ن کی انتخابی کامیابی کے امکانات پر کسی سائے کی طرح منڈلا رہی ہے۔

2013 میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہی پارٹی مہم کا مرکزی نکتہ تھا۔ وہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے جب کئی ایسے علاقوں میں 16 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی جن میں سب سے اہم حلقے آ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ملک سے ہمیشہ کے لیے یہ مسئلہ 'ختم' کرنے کے وعدے کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری۔

تھوڑے عرصے کے لیے یوں لگا کہ پارٹی اپنے وعدے کی تکمیل پر گامزن ہے۔ اس نے اپنے اقتدار کا آغاز گردشی قرضوں — بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے آگے غیر ادا شدہ بلوں کا انبار لگا تھا جو توانائی کے شعبے کو متاثر کر رہا تھا— کے تاریخی خاتمے کے ساتھ کیا۔ پیداواری صلاحیت میں کمی کا مسئلہ نہ اس وقت تھا اور نہ آج ہے۔ مسئلہ فنڈز کی کمی تھی، جن سے ہمارے توانائی کے شعبے میں موجود مالی خلا کو پر کرنا تھا۔

ایک ہی بار میں تمام گردشی قرضے کو ختم کر لینے کے بعد، پارٹی نے ملک سے وعدہ کیا کہ یہ اس نوعیت کی آخری مشق تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ اب سے توانائی شعبے میں اصلاحات کی جائیں گی اور پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے گا تا کہ اس شعبے کو مالی طور پر خود انحصاری کے تحت مضبوط اور اس وقت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر صورت قابل بنایا جاسکے۔ ستمبر 2013 میں آئی ایم ایف کو قرض کے لیے ملکی درخواست میں ان اصلاحات کی تفصیلات دی گئیں، درخواست میں دیگر تفصیلات کے علاوہ نجکاری اور قیمتوں میں اصلاحات کی تفصیل بھی شامل کی گئی۔

اس کے بعد آیا سی پیک، وہ دور رس منصوبہ جسے حال ہی میں منصوبہ بندی کمیشن نے ایک ٹوئیٹ میں ’ایک معجزہ’ قرار دیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ گرڈ میں 16 ہزار میگا واٹس کا نہ صرف اضافہ کرنے جا رہا ہے بلکہ اس کے تحت بجلی کی ترسیل کا نظام بنانے کے لیے ٹرانسمیشن لائنز پر بھی کثیر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ اب ہمارے مسائل کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔

سی پیک کے توانائی منصوبوں کی آمد کے ساتھ ہی اصلاحات کی تقریباً تمام باتیں ایک طرف رکھ دی گئیں۔ اب ہر چیز کے لیے سی پیک پر انحصار کیا جانے لگا اور کسی حکومتی وزیر سے سی پیک کو شاملِ گفتگو کیے بغیر معیشت پر بات کرنا قریب ناممکن ہی بن گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ اضافی میگاواٹس ہمارے تمام مسائل کر دیں گے۔

اس کے بعد اس کھیل کا پانسہ کچھ یوں پلٹنا شروع ہوا: 2018 سے قبل ہر صورت میگاواٹس میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کیا جائے۔ حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے سی پیک کی ’وقت سے پہلے’ کی اسکیم کے تحت لگائے جانے والے تمام نئے نئے توانائی منصوبوں کو شروع کر دیا جائے اور استعمال کیا جائے۔ ٹربائنز کو پوری رفتار پر چلایا جائے اور یوں لوڈ شیڈنگ غائب ہو جائے گی۔ پھر انتخابی مہم کا آغاز کیا جائے اور ہر حلقے میں جا کر پوچھا جائے، ’یاد ہے میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ مجھے ووٹ دیں گے تو میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دوں گا؟ کیا اب آپ کے گھر میں بجلی جاتی ہے؟ دیکھا! جیسے میں نے کہا تھا میں نے ویسے ہی کیا اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا! اب مجھے ایک اور دفعہ ووٹ دیں پھر میں غربت، بے روزگاری کو بھی ختم کر دوں گا۔’ وغیرہ وغیرہ۔

یہ توانائی کے شعبے میں پیداواری منصوبے سے زیادہ ایک سیاسی حکمت عملی تھی۔ دراصل واحد مسئلہ توانائی شعبے کو لاحق ایک مہلک بیماری کا تھا۔

یہ بیماری، توانائی کی کمی سے زیادہ مالی خساروں اور حکومتی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔ توانائی کے ایک ایسے متروک اور قدیم نظام میں میگاواٹس کا اضافہ صرف مسئلے میں اضافے کے برابر ہوگا۔ اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔

اگر مسئلے کو یوں حل کیا جائے تو حقیقت کافی مختلف ہو سکتی ہے۔ تمام منصوبوں کی تنصیب کے ساتھ، آغاز سے ہی بڑے تکنیکی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جس طرح نندی پور پاور پلانٹ کے ساتھ ہوا، جو ان منصوبوں کی فعالیت میں دشواری پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ، فنڈز کی کمی کے باعث اسکیم ناقابل عمل ہو سکتی ہے، جس طرح 2013 میں ہوا، جب فنڈز کی کمی ایندھن کی کمی کا باعث بنی تو پلانٹ بند کر دیا گیا، یا پھر نجی آپریٹرز کی جانب بھاری بقایاجات کا ڈھیر لگ سکتا ہے، جس طرح 2013 میں بھی ہوا تھا۔

مگر منصوبے میں ایک جو سب سے بڑی کمزوری ہے وہ یہ حقیقت کہ انتخابات منعقد ہونے سے قبل تین ماہ تک ایک عبوری حکومت قائم ہوگی۔ میں یہ شرط لگانے کو تیار ہوں کہ حکومت اقتدار عبوری حکومت کو سونپنے سے قبل اپنے پیچھے ایندھن کا اچھا خاصا ذخیرہ چھوڑ جائے گی اور بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے بھاری بقایاجات معاف کر دے گی کیونکہ یہ وہ دو اہم چیزیں ہیں جو انتہائی اہم موڑ پر جب بجلی کی پرسکون روانی کی سب سے زیادہ ضرورت بھی ہوگی، توانائی کے شعبے کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

چونکہ حکومت کی منتقلی جون میں مالی سال ختم ہونے سے قبل ہو گی، بقایاجات کی معافی کا اندازہ حکومت کے آخری سال کے مالی خسارے کے اعداد سے ہی لگایا جا سکے گا جو باقی تمام اہداف کو متاثر کر سکتا ہے۔

مگر کیا ان اہم مہینوں کے دوران بڑے پیمانے پر ادائیگیاں یا ایندھن کی غلط ذخیرہ اندوزی کرنا ٹھیک ہے، یا پھر غیر معمولی طور پر گرم اپریل، جس کی وجہ سے بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، میں لوڈشیڈنگ واپس لوٹ سکتی ہے کیوں کہ باآسانی ٹربائنز کو چلائے رکھنے کی وسیع تر حکمت عملی پر عملدرآمد کی صلاحیت عبوری حکومت کے پاس محدود ہوگی۔

اگر ایسا ہوتا ہے، تو انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ اور یہ اس دہائی کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہو گی، کیونکہ اس کی اقتدار میں آمد کے وقت کے حالات اور اور اقتدار سے رخصتی کے وقت حالات میں کوئی فرق ہی نہیں ہوگا۔

جب پارٹی نے ’لوڈشیڈنگ کو ختم’ کرنے کا وعدہ کیا تو لوگوں کو امید تھی کہ ان کے پاس خام میگاواٹس کے علاوہ ایک وژن بھی ہوگا۔ مگر پتہ چلا کہ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی وژن نہیں۔ اب آئے انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حکومت کی منصوبہ بندی کس قدر فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 20 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Atif Mahmood Apr 24, 2017 02:12pm
Kon kehta hai k Tawanai ki Kami hai. bhai bohat tawanai ha Pakistan m electricity banany k lea. pehly aap kuch study karen fir Kaalam likha karen. baqi rahi bat Maali khasary ki tu wo tu sub corruption kha rahay hen. uper s bewaqoof awam jo in jaisy hukamaran ka sath deti ha. Jaisi Awam waisy Hukmaran.