تہران: ایران کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ صدارتی انتخاب سے قبل براہ راست مباحثوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایرانی وزارت داخلہ کے ترجمان سید سلمان سمانی کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کَمپین مانیٹرنگ کمیشن کے فیصلے کے مطابق صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کے صرف پہلے سے ریکارڈ شدہ مباحثے نشر کیے جاسکیں گے۔‘

کمیشن نے مباحثوں کے لیے ہدایات بھی جاری کی تھیں، جن میں امیدواروں کو بتایا گیا تھا کہ انہیں ملک کے تاثر کو داغدار بنانے یا ایگزیکٹو، انتظامیہ، قانون سازی یا عدالتی اداروں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

واضح رہے ایران میں 2009 اور 2013 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں براہ راست مباحثوں کو عوام میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی، جبکہ کئی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ صدر حسن روحانی کی ان مباحثوں میں کارکردگی نے ان کی حیران کن فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: احمدی نژاد ایک مرتبہ پھر ایران کے صدارتی امیدوار

کمیشن کے اس فیصلے کو ایک قدامت پسند امیدوار علی رضا زاکانی نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے شفافیت کو بری طرح نقصان پہنچے گا۔

اس فیصلے پر سرکاری نشریاتی ادارے ’آئی آر آئی بی‘ نے حیرانی کا اظہار کیا جبکہ ادارے کے نائب سربراہ مرتضیٰ میر بَگھیری نے قبل ازیں بتایا تھا کہ ان کے اسٹیشن پر براہ راست مباحثے ’سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگرامز ہوتے ہیں اور یہی عوام کے لیے امیدواروں کو جاننے کا سب سے بہترین طریقہ ہوتا ہے۔

2009 میں اس وقت کے سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد اور ان کے اصلاح پسند مخالفین کے درمیان ٹی وی مباحثوں نے انتخابی نظام سے متعلق نئی بحث چھیڑ دی تھی اور انہیں انتخاب کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کا جزوی ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

صورتحال انتخاب میں دھاندلی کے الزامات کے باوجود احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے باعث کشیدہ ہوئی تھی۔

ایران میں 19 مئی کو ہونے ووالے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ایک ہزار 600 سے زائد افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، تاہم یہ تعداد قدامت پسندوں کی اکثریتی ’گارڈین کونسل‘ تقریباً نصف درجن امیدواروں تک محدود ہوجائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں