تنازعات سے بلندیوں تک پہنچانے والا مصباح الحق

21 اپريل 2017
جب مصباح الحق کو کپتان بنایا گیا تو پاکستان کو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل جیسے بدنامی کا سامنا تھا لیکن انہوں نے ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کردیا— فائل فوٹو: رائٹرز
جب مصباح الحق کو کپتان بنایا گیا تو پاکستان کو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل جیسے بدنامی کا سامنا تھا لیکن انہوں نے ٹیم کو فتح کی راہ پر گامزن کردیا— فائل فوٹو: رائٹرز

مصباح الحق نے ناقدین کے طعنوں اور بڑھتی ہوئی عمر کو شکست دے کر پاکستان کو اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی اتاہ گہرائیوں سے نکال کر عالمی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم بنایا اور پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان بننے کا تاج سر پر سجایا۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف آج سے شروع ہونے والی سیریز میں ریٹائر ہونے والے 42 سالہ کپتان نے انگلینڈ کے خلاف انہی کی سرزمین پر سیریز 2-2 سے ڈرا کر کے پاکستان کو عالمی نمبر ایک بنایا اور پاکستان نے چھ سال قبل کیے گئے بدترین دورے کے آسیب کو وہیں دفن کر دیا۔

2011 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہندوستان کے خلاف محتاط بیٹنگ کے سبب ٹیم کی شکست پر انہیں جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ٹی20 فارمیٹ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر مجبور کیا گیا، اگر ان کی جگہ کوئی اور کمزور دل آدمی ہوتا تو کافی عرصہ قبل ہی ریٹائرمنٹ لے کر گھر جا چکا ہوتا۔

پنجاب کے شہر میانوالی میں پیدا ہونے والے مصباح کو ان کے والد جو خود بھی ہاکی کےسابق کھلاڑی تھے، نے ہدایت کی کہ وہ کھلاڑی بننے کا خواب چھوڑ دیں اور اپنی تعلیم پر دھیان دیں۔

والد کی بے وقت موت نے مصباح کی ترجیحات کو وقتی طور پر بدل دیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایک ٹیکسٹائل کمپنی میں نوکری کرنے کیلئے بھی تیار ہو گئے لیکن اس کو عملی جامع نہیں پہنایا۔

مصباح نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ مجھے ان حالات سے لڑنا تھا اور بالآخر میں کرکٹ میدانوں میں قدم جمانے میں کامیاب رہا۔

اپنے آبائی علاقے میں سہولتوں کے فقدان اور مواقع ملنے کے کم امکانات کے سبب وہ روزانہ ٹرین سے بڑے شہروں کا رخ کرتے جہاں انہوں نے گلی محلوں میں ہونے والے ٹیپ بال کرکٹ سے اپنے کیریئر کی بنیاد رکھی اور پھر ڈومیسٹک کرکٹ میں قدم رکھا۔

ان کا انٹرنیشنل کیریئر 2001 کے دورہ نیوزی لینڈ سے شروع ہوا لیکن وہ کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے اور خصوصاً اس دہائی میں بیٹنگ لائن میں انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان جیسے بڑے ناموں کی موجودگی کے سبب وہ ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔

البتہ ڈومیسٹک سطح پر مستقل اچھی کارکردگی سے انہوں نے سلیکٹرز کو اپنے انتخاب پر مجبور کردیا اور انہیں 33 سال کی عمر میں 2007 کے ورلڈ ٹی20 کیلئے حیران کن طور پر ٹیم میں منتخب کر لیا گیا اور یہی ان کے کیریئر کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور روایتی حیرف ہندوستان کے خلاف فائنل میچ میں 43 رنز کی اننگز کھیل ٹیم کو فتح کی دہلیز تک پہنچا دیا۔

مایوس کن لمحات

وہ ایک اسکوپ کھیلنے کی کوشش میں وکٹ دے بیٹھے اور یوں پاکستان فتح کے انتہائی قریب آ کر پانچ رنز سے میچ ہار گیا اور ہندوستان پہلے ورلڈ ٹی20 ٹورنامنٹ کا عالمی چیمپیئن بنا۔

انہوں نے کہا کہ وہ فائنل میچ ہارنا بہت مایوس کن تھا۔ میں ایک ایسی پوزیشن سے پاکستان کو میچ میں واپس لایا جہاں ہم میچ سے تقریباً ہار چکے تھے لیکن ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کرا سکا اور یہ میرے کیریئر کا سب سے مایوس کن لمحہ ہے۔

اس کے بعد 2007 کے دورہ ہندوستان میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو سنچریاں اسکور کیں لیکن 2010 کے دورہ آسٹریلیا میں ناقص کارکردگی پر ان کا کیریئر ایک مرتبہ پھر زوال کی جانب گامزن نظر آنے لگا۔

انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ بہت مشکل وقت تھا۔ میں فائنل الیون کا حصہ تھا لیکن پھر یکدم مجھے باہر کر دیا گیا جس نے مجھے غصے سے اپنا سارا کرکٹ کا سامان جلانے کی تحریک دی۔

اس سال گرمیوں میں پاکستان کی قیادت نوجوان کپتان سلمان بٹ کے ہاتھ میں تھی جنہیں محمد آصف اور محمد عامر جیسے باصلاحیت اور بہترین باؤلرز کا ساتھ میسر تھا۔

لیکن چند بہترین کارکردگی کے بعد پاکستان ٹیم اور شائقین پر اس وقت سکتہ طاری ہو گیا جب برٹش نیوز آف دی ورلڈ نے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا انکشاف کیا اور ان تینوں کھلاڑیوں کو اس جرم میں پابندی کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔

اس مشکل مرحلے پر ٹیم کی تعمیر نو کی ذمے داری مصباح کو سونپ دی گئی جنہوں نے اس کو تہ دل سے قبول کیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

سعید اجمل جیسے شاندار آف اسپنر، اپنی دانشمندانہ قیادت اور مضبوط و متحد ٹیم کی بدولت ہوم گراؤنڈ سے محروم ہونے کے باوجود ٹیم نے نئے ہوم گراؤنڈ متحدہ عرب امارات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور نو سیریز میں ناقابل شکست رہی(پانچ میں فتح اور چار ڈرا کیں)۔

2016 میں انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس وقت وہ قومی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے 24 میچوں میں فتح دلا چکے ہیں جبکہ 14 میں ٹیم کو ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔

مصباح الحق کے اعدادوشمار دورہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے قبل انتہائی بہتر معلوم ہوتے تھے جہاں انہیں لگاتار پانچ ٹیسٹ میچوں میں شکست اور دو سیریز میں کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں فتح کے ان کے قائدانہ دور کا بہترین اختتام ثابت ہو سکتی ہے اور مصباح کو یقین ہے کہ آنے والی نسلیں انہیں ایک بہترین قائد اور کرکٹر کے طور پر یاد رکھیں گی۔

’میری میراث میرے اعدادوشمار اور ٹیم کی جانب سے حاصل کی گئی عزت و احترام میں ہمیشہ زندہ رہے گی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں