سیالکوٹ: 13 سال قبل مبینہ طور پر گستاخی کے مرتکب ہونے والے شخص کو قتل کرنے والی تینوں بہنوں کو جرم پر اُکسانے والے شخص کی نشاندہی ہوگئی۔

ایف آئی آر کے مطابق ان بہنوں نے یہ قتل پیش امام کے اُکسانے پر کیا اور یہ ہی پیش امام متاثرہ شخص کے خلاف گستاخی کے کیس میں شکایت کنندہ تھے۔

پولیس نے 13 سال قبل مبینہ طور پر گستاخی کے ارتکاب کرنے والے فضل عباس شاہ کو قتل کرنے کے شبہ میں گرفتار تینوں بہنوں آمنہ، افشاں اور رضیہ بی بی کو پسرور کی مقامی عدالت میں سول جج وسیم حسین کے سامنے پیش کیا اور ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد مقامی عدالت نے تینوں بہنوں کو 2 ہفتے کے جوڈیشل ریمانڈ پر سیالکوٹ کی ضلعی جیل بھیج دیا۔

اس سے قبل پولیس نے مقتول فضل عباس شاہ کے رشتے دار سید اظہر حسین شمسی کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 34، 109 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 3 بہنوں نے 'توہین رسالت' کے مبینہ ملزم کو قتل کردیا

مقدمے کی ایف آئی ار کے مطابق تینوں بہنوں نے پسرور کی جامعہ مسجد صدیق اکبر کے پیش امام مولوی محمد شفیق ڈوگر کے اکسانے پر فضل عباس کو گولی ماری، واضح رہے کہ مولوی محمد شفیق 2004 میں پسرور کے سٹی پولیس اسٹیشن میں فضل عباس کے خلاف درج ہونے والے مبینہ گستاخی کے مقدمے کا مدعی بھی تھا۔

پسرور کی صدر پولیس اسٹیشن کے انچارچ (ایس ایچ او) انسپکٹر سعید ہنجرا نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ پیش امام کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق مقتول فضل عباس شاہ مبینہ طور پر مارچ 2004 میں پسرور کے علاقے جناح گیٹ پر اجتماع سے خطاب کے دوران گستاخی کا مرتکب ہوا تھا۔

واضح رہے کہ فضل عباس شاہ اپنے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد ڈنمارک روانہ ہوگیا تھا اور وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھا۔

پولیس کے مطابق عدالت مبینہ گستاخی کے مقدمے میں فضل عباس شاہ کو مفرور قرار دے چکی تھی۔


یہ خبر 21 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں